ہاۓ
جب میں بی بی سکینہؑ کے روضے پہ تھا
دیکھ کر ان کے روضہ کو دل نے کہا
کل یہ روضہ ہی بی بی کا زندان تھا
دیکھا روضہ تو ماضی میں میں کھو گیا
سامنے میرے زندان تھا شام کا
اس گھڑی میرے لب پر فغاں آگئ
روشنی کا سفر بھی نہیں
اور ہوا کا گزر بھی نہیں
کس قدر حبس ہے المہ
کیسے رہتی ہو بی بی یہاں
تم کو یاد پدر سونے دیتی نہں
اور اس پہ ستم ہے یہ خوفِ لعیں
ضبط غم ایک آزار ہے
سانس لینا بھی دشوار ہے
تم تو تم قید ہے سسکیاں
کیسے رہتی ہو بی بی یہاں
زخم کھاتی اور اشک پیتی ہو تم
مجھ کو حیرت ہے کس طرح جیتی ہو تم
تازیانے دوا بن گۓ
یا اندھیرے شفا بن گۓ
قید میں ایسا ممکن کہاں
کیسے رہتی ہو بی بی یہاں
میری بی بی مجسّم فغاں ہوگئ
کیا خطا تھی کہ قیدی یہاں ہوگئ
کمسنی میں یتیمی ملی
گھر سے نکلی اسیری ملی
سن رہا ہوں یہ کہتی ہے ماں
کیسے رہتی ہو بی بی یہاں
فطرت ساری باتیں مجھے ہیں خبر
قید میں قیدی کو یاد آتا ہے گھر
پھول بن کے چمن میں رہیں
کتنے ناز و سے گھر میں پلیں
اب یہ غم یہ ستم سختیاں
کیسے رہتی ہو بی بی یہاں
شام کی عورتوں سے سنا ہے یہی
تم جو روتی ہو سوتا نہیں ہے شقی
مارتا ہے وہ سجاد کو
سہہ کے سجاد افتاد کو
کرتے رہتے ہیں بس یہ فغاں
کیسے رہتی ہو بی بی یہاں
دل پہ کوہ گراں ایک احساس ہے
چھوٹے بچے تو ڈرتے ہیں تنہائ سے
ہر گھڑی پہرہ داروں کا ڈر
ساتھ کوئ نہیں نوحہ گر
نہ پدر نہ چچا اور نہ ماں
کیسے رہتی ہو بی بی یہاں
تم جو اہل حرم سے جدا قید ہو
پھر تو حق ہے تمہارا کہ نوحہ کرو
ہاۓ قسمت یہ نہ ہو سکا
حکم ظالم سے تجھ کو ملا
نوحہ خوانی پہ پابندیاں
کیسے رہتی ہو بی بی یہاں
آئ کانوں میں یہ قیدیوں کی فغاں
رو کے کہتی ہیں زنداں میں کچھ بی بیاں
ہم یہ کہہ کہہ کہ ماتم کریں
اس یتیماں کو زنداں میں
پرسہ دیتی ہیں تنہائياں
کیسے رہتی ہو بی بی یہاں
پھر تسلسل تصور کا ٹوٹا میرا
میرے پیش نظر روضہ بی بی کا تھا
ہاتھ مصروف ماتم ہوۓ
اشک آنکھوں سے گرنے لگے
پھر بھی ہونٹوں پہ تھی یہ فغاں
کیسے رہتی ہو بی بی یہاں
لفظ مظہر کے احساس فرحان کر
وہ یہ کہتا ہے بی بی سے میں نے کہا
میں نے یہ کہہ کہ ماتم کیا
جن لعینوں نے کی تھی جفا
ان کی اولاد کے درمیاں
کیسے رہتی ہو بی بی یہاں
کیسے رہتی ہو بی بی یہاں