زینبِؑ حزین من خواہَراں خدا حافظ
من کہ بہ علم دارم بےمعین و بے یارم
از حیات بیزارم خواہَراں خدا حافظ
اے میری بہن زینبؑ گھر تیرے حوالے ہے
جو لائق سجدہ ہے سر اس کے حوالے ہے
بس چلنے کو ہے خنجر خواہَراں خدا حافظ
خنجر میری گردن پر جب شمر چلاۓ گا
رہ رہ کے مجھے تیرا چہرہ نظر آۓ گا
تو ہو گی برہنہ سر خواہَراں خدا حافظ
مارے گۓ سب بہنا ہم رہ گۓ اب تنہا
اس عالم غربت میں مشکل ہے میرا جینا
مارے گۓ سب دلبر خواہَراں خدا حافظ
زنداں کے اندھیرے میں جب روۓ میری بچی
دل جوئی بہت کرنا اس وقت بہن اس کی
مر جاۓ نہ وہ گھٹ کر خواہَراں خدا حافظ
زنداں سے رہا ہو کر جب سوۓ وطن جانا
جو ظلم ہوۓ ہم پر صغراؑ کو وہ بتلانا
ہم قتل ہوۓ کیوں کر خواہَراں خدا حافظ
کہنا تیری فرقت میں اکبرؑ بھی تڑپتا تھا
روتا تھا سر مقتل جب خط تیرا آیا تھا
سینے پہ سناں کھا کر خواہَراں خدا حافظ
ہر گود میں ڈھونڈے گی صغراؑ علی اصغرؑ کو
تم خود ہی بتا دینا بیمار کو مضطر کو
ناوَک لگا گردن پر خواہَراں خدا حافظ
پوچھے جو سکینہؑ کو بیمار میری دختر
بتلانا کہ زنداں میں وہ مرگئ رو رو کر
وہ زخم بھی ہے دل پر خواہَراں خدا حافظ
ریحان بہت روئی زینبؑ یہ بیاں سن کر
کہنے لگی بھائی کے سینے پہ وہ سر رکھ کر
دل ڈوبا ہے یہ سن کر خواہَراں خدا حافظ
من کہ بی علم دارم بےمعین و بے یارم
از حیاتِ بیزارم خواہَراں خدا حافظ
زینبؑ حزین من خواہَراں خدا حافظ