یہ شام عاشور کا ہے منظر
ہے کرب میں عترت پیمبر
جبھی تو ساحل پہ علقمہ کے
کسی کی میت تڑپ رہی ہے
یہ کوئی محو بکا ہے شاید
کسی نے عمو کہا ہے شاید
بڑھا ہے شاید کوئی ستمگر
جبھی تو ساحل پہ علقمہ کے
کسی کی میت تڑپ رہی ہے
وہ بھولی بھالی سی ایک بچی
نجف کی جانب جو تک رہی تھی
کسی نے چھینے ہیں اِس کے گوہر
جبھی تو ساحل پہ علقمہ کے
کسی کی میت تڑپ رہی ہے
عطش سے بچے مچل رہے ہیں
یہ پھول شعلوں میں جل رہے ہیں
چمن میں کملا گئے گل تر
جبھی تو ساحل پہ علقمہ کے
کسی کی میت تڑپ رہی ہے
ہجوم غم سے جو نیم جاں ہے
وہی جو بیمار ناتواں ہے
کسی نے کھینچا ہے اس کا بستر
جبھی تو ساحل پہ علقمہ کے
کسی کی میت تڑپ رہی ہے
رہی جو کوفے کی شاہزادی
کسی نے شاید اُسے صدا دی
چھنی ہے گوہر اب اُس کی چادر
جبھی تو ساحل پہ علقمہ کے
کسی کی میت تڑپ رہی ہے