کربلا والوں پہ جو گذری وہ قیامت اور ہے
ہر پیمبر پر جو آئی وہ مصیبت اور ہے
عصر تک جو جانے کیا ہو پیاس کی شدت کا حال
صبح سے عاشور کے سورج کی حدت اور ہے
کربلا والوں
کٹ کے سر دارالاعمارہ پر ہے شہہ کا منتظر
کوفیوں مسلم کا انداز سفارت اور ہے
کربلا والوں
کھینچی ہے سینہ اکبر سے برچھی کی انی
آخری یہ شاہ دیں بیٹے کی خدمت اور ہے
کربلا والوں
ریگ زار گرم پر چادر بچھاتے ہیں حسین
کیا کریں کہ لاشہ قاسم کی حالت اور ہے
کربلا والوں
باب خیبر کا اٹھانا وہ شجاعت اور تھی
تیر کھا کر مسکرانا یہ شجاعت اور ہے
کربلا والوں
دشمنان کربلا پھر معرکہ آرائ ہے آج
مجلس و ماتم کی شاہد اب ضرورت اور ہے
کربلا والوں