جنگل پہاڑ کرتے ہیں ناد علیؑ علیؑ
مشکل کو میری حَل کرو مشکل كشاء علیؑ
حسینؑ حسینؑ حسینؑ
رخصت کو اہلیبیتِ نبیؐ میں گئے امام
قدموں پہ لُوٹنے لگی سیدانیاں تمام
وہ شور الفراق کا وہ یاس كے کلام
بچے بھی سَر پٹکتے تھے لے لے كے شہہؑ کا نام
روتے تھے یوں تو لِپٹے ہوئے سب حسینؑ سے
لیکن کلیجے پھٹتے تھے زینبؑ كے بین سے
حسینؑ حسینؑ حسینؑ
اُس وقت تھا عجب شہہِ دیں پر ہجومِ یاس
ڈھلنا وہ دو پہر کا وہ آندھی وہ لُو وہ پیاس
لاشے پڑے ہوئے تھے عزیزوں كے آس پاس
رو کر فلک کو دیکھتے تھے شاہِ حق شناس
اٹھتا تھا دردِ دل تو قدم لڑکھڑاتے تھے
فرما كے یا علیِِؑ ولی بیٹھ جاتے تھے
حسینؑ حسینؑ حسینؑ
بھائی كے سَر کو چھاتی سے لپٹا كے یہ کہا
بتلاؤ کیا اِرادہ ہے اے میرے مہ لقا
دستِ ادب کو جوڑ كے بولا وہ باوفا
پیاسی سكینہؑ مرتی ہے یا شاہِ کربلا
گزرے ہیں تِین دن یونہی اِس دشتِ خاک پر
گر اِذن ہو تو پانی کو جاؤں فرات پر
حسینؑ حسینؑ حسینؑ
یاں چڑھ چکے تھے گھوڑے پہ عباسِؑ حق شناس
آئی صدا بھتیجی کی سنتے ہی در كے پاس
بولی یہ مشک دے کے سكینہؑ با درد و یاس
قربان عمّو جان بجھا دو ہماری پیاس
اُبلا ہے دِل عطش سے کلیجہ کباب ہے
سقائی کیجیے كہ یہ کارِ ثواب ہے
حسینؑ حسینؑ حسینؑ
عباسؑ نے کہا كہ میرا فخر ہے یہ کام
بی بی تمھارے باپ کا ادنیٰ ہے یہ غلام
دی تم نے آبرو مجھے اے دخترِ امام
اب ہو گیا جہاں میں بہشتی ہمارا نام
کوثر میں سمجھوں دوش پہ گر مشکِ آب ہو
تم بھی دعا کرو كہ چچا کامیاب ہو
حسینؑ حسینؑ حسینؑ
چھاتی تک اُس نے پانی کو دیکھا جو ایک بار
گھوڑے کا دِل ہوا صفتِ موجِ بے قرار
حسرت سے منہ پِھرا كے نظر کی سوئے سوار
بولے یہ باگ چھوڑ كے عباسِؑ نامدار
تو پی لے اے فرس كے بہت تشنہ کام ہے
ہَم پر تو بے حسینؑ یہ پانی حرام ہے
حسینؑ حسینؑ حسینؑ
بَوچھاڑ یک بہ یک ہوئی تیروں کی ہئے غضب
تیغیں چلیں عَقب سے شریروں کی ہئے غضب
یہ شکل دو جہاں كے امیروں کی ہئے غضب
بجھنے نہ پائی پیاس صغیروں کی ہئے غضب
نیزے تھے اور چاند سے پہلو دلیر كے
تیروں نے چھان ڈالا تھا سینے کو شیر كے
حسینؑ حسینؑ حسینؑ
شانے سے یوں اُبل كے بہا خوں كہ الاماں
تیورا كے جھومنے لگے عباسِؑ نوجواں
مچھلی کی طرح ہاتھ تو ریتی پہ تھا تپاں
لیکن جدا نا ہوتی تھی قبضے سے انگلیاں
بے دست ہوگئی تھی جو اِس صفدری كے ساتھ
تلوار بھی تڑپتی تھی دستِ جری كے ساتھ
حسینؑ حسینؑ حسینؑ
رستے میں لڑکھڑاتے تھے جب ضعف سے قدم
اکبرؑ سنبھال لیتے تھے بابا کو دم بہ دم
فرماتے تھے تڑپ كے پسر سے شہہِؑ امم
جو حال ہو بجا ہے كہ بھائی کا ہے الم
بازو پکڑ كے دلبرِ زہراؑ کو لے چلو
بیٹا چچا کی لاش پہ بابا کو لے چلو
حسینؑ حسینؑ حسینؑ
اکبرؑ سے پِھر کہا كے علمدار کو اٹھاؤ
پُر خوں یہ مشک خیمہءِ عصمت میں لے كے جاؤ
بیوہ ہوئی چچی اسے پُرسہ دو خاک اڑاؤ
بیٹا چچا كے بچوں کو جا کر گلے لگاؤ
پوچھیں جو سب كہ سبط پیمبرؑ کدھر گئے
کہہ دیجیو كے بھائی كے لاشے پہ مر گئے
حسینؑ حسینؑ حسینؑ
غل پڑ گیا كہ شہہؑ كے علمدار ہائے ہائے
اے نور چشم حیدرِ کرار ہائے ہائے
اے ابن فاطمہؑ كے مددگار ہائے ہائے
اے فوجِ شہہؑ كے جعفرِ تیارؑ ہائے ہائے
چھوٹے سے ہاتھ رکھ كے دلِ درد ناک پر
دے مارا سَر کو بالی سكینہؑ نے خاک پر
حسینؑ حسینؑ حسینؑ