جب گرے گھوڑے سے مقتل میں شہے کرب و بلا
خنجر ظلم لئے شمر ستمگار بڑھا
دی تڑپ کر در خیمے سے یہ زینب نے صدا
ابھی خنجر نہ چلا ابھی خنجر نہ چلا
ظالم ابھی خنجر نہ چلا۔۔۔
توڑ مت بحر خدا فاطمہ زہرا کا چین
اور کُچھ دیر ٹھہر جا ارے ظالم کہ حُسین
بخشش اُمت جد کی ابھی کرتے ہیں دُعا
ابھی خنجر نہ چلا ۔۔۔
تین دن ہو گئے پیاسا ہے نبی کا جانی
ذبح کرنا ہے تو دو گُھونٹ پلا دے پانی
کُند خنجر ہے میرے بھائی کا سُوکھا ہے گلا
ابھی خنجر نہ چلا ۔۔۔
بوسہ گاہ نبوی ہے یہ گلا اے ظالم
شہ رگ دیں پہ خنجر نہ چلا اے ظالم
چُومتے تھے اسی حلقوم کو محبوب خدا
ابھی خنجر نہ چلا ۔۔۔
چھوڑ کر ُخلد کو ذرافاتح خیبر آ لے
اور کُچھ دیر میںجا کہ پیعمبر آلے
آتی ہی ہوں گی وہ آلینے دے اماں کو ذرا
ابھی خنجر نہ چلا ۔۔۔
کیا کروں جائو ں کہاں کس کو پُکاروں بھائی
کیسے دیکھے گی تمہیں توڑتے دم ماں جائی
یا الٰہی مُجھے شبیر سے پہلے لے اُٹھا
ابھی خنجر نہ چلا ۔۔۔
ہائے کس دل سے کروں تذکرہ جورو جفا
کٹ گیا سامنے زینب کے شہ دین کا گلا
چیختی رہ گئی زینب سر مقتل با خُدا
ابھی خنجر نہ چلا ۔۔۔