زندان میں سکینہؑ عابدؑ سے کہ رہی ہے
دم گھٹ رہا ہے بھیّا یہ رات آخری ہے
جلا میرا کرتا چھنے گوشوارے
ستم گر نے مجھ کو تمانچے ہیں مارے
ستاتے ہیں مجھ کو یہ بابا کے قاتل
یہ دکھیا دکھی اور کس کو پکارے
بابا کے قاتلوں سے ہر گز کفن نہ لانا
ہے یہ میری وصیت خواہش میری یہی ہے
سکینہؑ پہ بھیا کٹھن یہ گھڑی ہے
اسیری جو مجھ پر مصیبت بڑی ہے
وطن یاد آتا ہے بھیا چلو گھر
مدینے کی راہوں پہ صغراؑ کھڑی ہے
ہر شام یہ پرندے جاتے ہیں اپنے گھر کو
کب جائوں گی وطن میں رو کر وہ پوچھتی ہے
زمیں پر میں زنداں کی سوتی ہوں بابا
میں اشکوں سے دامن بھگوتی ہوں بابا
خدارا مجھے پاس اپنے بلالو
جدا ہو کے تم سے میں روتی ہوں بابا
صدیاں گزر چکیں ہیں اب بھی ہر ایک محب کو
زندان سے سسکیوں کی آواز آ رہی ہے