اسیر ہوکے چلی ہوں سلام اے بابا
یہاں سے جاتی ہوں زندان شام اے بابا
اسیر ہوکے چلی ہوں سلام اے بابا
سنو سكینہؑ سے غم کا پیام اے بابا
ہمارے جل گئے سارے خیام اے بابا
کہاں کہاں ہو نہ جانے قیام اے بابا
ہے وجه زیست تمہارا ہی نام اے بابا
اسیر ہوکے چلی ہوں سلام اے بابا
یہاں سے شام کو جانے کی ابتدا دیکھو
رسن سے گھٹتا ہے بابا میرا گلا دیکھو
پھپھی كے سَر سے بھی تو چین لی ردا دیکھو
یہ ابتدا ہے تو کیا ہو گی انتہا دیکھو
اسیر ہوکے چلی ہوں سلام اے بابا
یہ ابتدا ہے مصیبت کی انتہا بھی نہیں
گزر گئی ہے قیامت مگر گلہ بھی نہیں
پھپھی کے سر پہ کفن كے لیے ردا بھی نہیں
اور آج ہوش میں بیمارِ کربلا بھی نہیں
اسیر ہوکے چلی ہوں سلام اے بابا
ہمارا کرب و بلا میں قیام ہو نہ سکا
تمہارے دفن کا بھی انتظام ہو نہ سکا
پڑے ہو خاک پہ کچھ اہتمام ہو نا سکا
یہ ضُعف ہے كے ادا بھی سلام ہو نا سکا
اسیر ہوکے چلی ہوں سلام اے بابا
ہے سر پہ خاک بھی غم بھی ہے اور بکا بھی ہے
ہے کمسنی بھی مصیبت بھی اور جفا بھی ہے
پھپھی کے ساتھ رسن میں میرا گلہ بھی ہے
اِن آفتوں سے گزرنے کا حوصلہ بھی ہے
اسیر ہوکے چلی ہوں سلام اے بابا
سنا ہے شام کا دربار جب بھرا ہو گا
یزید کا سرِ دربار سامنا ہو گا
میرا تو بھائی بھی زنجیر میں بندھا ہو گا
پھپھی جو پہنچیں گی دربار میں تو کیا ہو گا
اسیر ہوکے چلی سلام اے بابا