عابدِ بیمارؑ کی آنکھوں سے خون رکتا نہیں
جس کو زینبؑ کے لئے پردہ کہیں ملتا نہیں
دیکھو نہ میرا تماشہ روکے عابدؑ نے کہا
ساتھ میرے آئی ہے ہو کے وہ قیدی بے ردا
ننگے سر جسکو کبھی بابا نے بھی دیکھا نہیں
غم نہ کرنا تُو سکینہؑ سفر میں زینبؑ کے ساتھ
سینے پہ سو جانا ماں کے جب کبھی ہو جائے رات
لٙوٹ کر آئے گا اب ۔ بیٹا تیرا بابا نہیں
ڈر سے سہمی ہے سکینہ خون کانوں سے رواں
پوچھتی دکھلا کے عابدؑ کو طمانچوں کے نشاں
کب وطن میں جائیں گے ۔ کوئی یہاں اپنا نہیں
دیکھتی معصوم بچوں کی جو زینبؑ پیاس کو
دیتا جو جنگ کی اجازت بھائی تُو عباسؑ کو
بے کفن رہتا نہ تُو ۔ پردہ میرا لُٹتا نہیں
پہنچی ہے دربار میں جب شام کے بنتِ علیؑ
کہتی ہے دیکھو ذرا ۔ نانا میری یہ بے بسی
فضہؑ کے وارث تو ہیں ۔ لیکن میرا کوئی نہیں
سامنے عابدؑؑ کے بن میں لُٹ گیا زہراؑ کا گھر
کس طرح زینبؑ کو دیکھے شام میں وہ ننگے سر
دیکھا ہے کائنات نے ۔ صابر کوئی ایسا نہیں
رات جب ہو جائے گی ۔ بر سرِ کرب و بلا
اُسکا جھولا جل گیا پانی بھی اُسکو نہ ملا
کس طرح سوجاؤں میں اصغرؑ میرا سویا نہیں