عصر کا وقت ہے شبّیرؑ کی آتی ہے صدا
چُور زخموں سے بدن ہو گیا اماں میرا
اپنی آغوش میں اب مجھ کو چُھپا لو اماں
ارے دھوپ ہے اپنی عبا آن کے ڈالو اماں
گرم ریتی پہ میں گرتا ہوں سنبھالو اماں
تھک گیا لاشیں اٹھا کر میں بھرے لشکر کی
لاش قاسمؑ کی میں لایا ہوں کبھی اکبرؑ کی
خود بنائی ہے لحد میں نے علی اصغرؑ
دو تسلی مجھے سینے سے لگالو اماں
گرم ریتی پہ میں گرتا ہوں۔۔۔۔۔
تیر تلوار سے ، خنجر سے بدن زخمی ہے
خاک اُڑتی ہے تو زخموں میں چُبھن ہوتی ہے
میرے زخموں سے میرے دل کا لہو جاری ہے
اپنی چادر کو میرے زخموں پہ ڈالو اماں
گرم ریتی پہ میں گرتا ہوں۔۔۔۔۔
میرا عبّاسؑ خفا ہوگیا اماں مجھ سے
وہ نہیں آیا اٹھا لایا تھا بازو اُس کے
آپ ایک کام کریں نہر کنارے جا کے
میرے روٹھے ہوے بھائی کو منالو اماں
گرم ریتی پہ میں گرتا ہوں۔۔۔۔۔
چکیّاں پیسی ہیں گودی میں بٹھا کر مجھ کو
جاگتی رہتی تھیں گودی میں سلُا کر مجھ کو
لوریاں دیتی تھیں جھولے میں جُھلا کر مجھ کو
اِک دفعہ گود میں پھر اپنی سُلا لو اماں
گرم ریتی پہ میں گرتا ہوں۔۔۔۔۔
اور کچھ دیر کا مہمان ہوں تم پاس رہو
ریت زخموں میں ہے آنچل سے اِسے صاف کرو
آتی ہے رونے کی آوازِ سکینہؑ دیکھو
جاؤ تم جا کے سکینہؑ کو سنبھالو اماں
گرم ریتی پہ میں گرتا ہوں۔۔۔۔۔
دیکھو وہ آگ لگی شام غریباں آئی
دیکھو گھبرا کے نکل آئی میری ماں جائی
دیکھو بیہوش سکینہؑ کا پڑا ہے بھائی
جاؤ سجادؑ کو شعلوں سے نکالو اماں
گرم ریتی پہ میں گرتا ہوں۔۔۔۔۔
ہے گزارش میری تم سے تو اب اتنی مادر
اماں بابا کی قسم ڈھانپ لو منہ پر چادر
دیکھا جائے گا نہ اب تم سے یہ خونیں منظر
قتل ہوتا ہوں نگاہوں کو ہٹا لو اماں
گرم ریتی پہ میں گرتا ہوں۔۔۔۔۔
ہوگی جب حشر کے میدان میں مجلس برپا
فرشِ غم شہ کے بچھائیگی جنابِ زہراؑ
آئے گی حضرت شبّیرؑ کی ریحان صدا
آج جی کھول کے تم اشک بہالو اماں
گرم ریتی پہ میں گرتا ہوں۔۔۔۔۔