کارواں
یثرب سے سوئے کربلا
اِک کارواں رخصت ہُوا
سَر پہ علم سایہ فگن
غازی کی آتی ہے صدا
پہلا سفر زینب کا ہے
سنسان کردو راسته
کارواں عباس میر کارواں
کیا شان ہے کیا دبدبا
کیا لوگ ہیں قرآں نما
صلی علی صلی علی
آیات کا ہے سلسلہ
مشک و علم انکا نشاں
عباس میرِ کارواں
عباس میرِ کارواں
اللہ كے پیارے ہیں یہ
آلِ نبی سارے ہیں یہ
قرآن كے پارے ہیں یہ
کونین كے تارے ہیں یہ
زیر قدم ہے آسماں
عباس میرے کارواں
کارواں عباس میر کارواں
کوئی شبیہہ مصطفی
کوئی حسن کا دلربا
ہے کوئی عکسِ سیدہ
شبیر کا یہ قافلہ
تھامے علم جو ہے جواں
عباس میرے کارواں
کارواں عباس میر کارواں
یثرب سے تا بہ کربلا
ہر دم طوافِ قافلہ
عباس کرتا ہی رہا
پردے کا ذمہ دار تھا
یوں مطمئن تھی بیبیان
عباس میرے کارواں
کارواں عباس میر کارواں
عباس وہ کردار ہے
بعدِ علی سالار ہے
ایسا علم بردار ہے
میدان میں تلوار ہے
پِھر بھی علم کا پاسبان
عباس میرے کارواں
کارواں عباس میر کارواں
لو آگیا اُسکا علم
غازی جسے کہتے ہیں ہم
کہتے چلو یہ دمبدم
عباس میر لشکرام
بابُ الحوائج مہربان
عباس میرے کارواں
کارواں عباس میر کارواں
جب شام پہنچا قافلہ
خطبہ یہ زینب نے دیا
سن لے یہ قوم اشقیا
ہم ہیں بنائے لاالہ
کشتی ہے دیں ہم بادباں
عباس میرے کارواں
کارواں عباس میر کارواں
تھا حشر میں مولا علی
یہ سرور و ریحان بھی
نظرِ کرم سے آپکی
رکھتے ہیں امیدِ قوی
نوحوں سے دینگے یہ بیان
عباس میرے کارواں
کارواں عباس میر کارواں