Janab e Hazrat e Abbas Ko Bulaya Karo
Efforts: فرح مقدس



مولا عباس مولا عباس
مولا عباس مولا عباس

مولا ہیں ہمارے دل اُنہیں پُکارے
بِن بازؤں کے جو تقدیریں لکھتے ہیں
باب الحوائج فضل کے بابا
بالی سکینہ کے ہیں چچا
اِنکو بُلاؤ سب غم سُناؤ
ہیں وہ سخی بادشاہ

دیا جلا کے سکینہ کے نام کا گھر میں
جنابِ حضرتِ عباس کو بُلایا کرو

کہاں کہاں وہ ہماری مدد نہیں کرتے
قسم سکینہ کی عباس رد نہیں کرتے
بغیر مانگے وہ سب کچھ عطا کریں گے تمھیں
سکینہ بی بی کا فرشِ عزا بچھایا کرو

دیا جلا کے سکینہ کے نام کا گھر میں
جنابِ حضرتِ عباس کو بُلایا کرو

بہت قریب ہے عباس کے یہ شہزادی
جو دیکھنی ہو محبت چچا بھتیجی کی
تم اپنے گھر میں سجاتے ہوئے عزا خانہ
علم پہ چھوٹی سی اک مشک بھی سجایا کرو

دیا جلا کے سکینہ کے نام کا گھر میں
جنابِ حضرتِ عباس کو بُلایا کرو

مثال کرب و بلا ہے کرم نوازی کی
یہ کمسنی میں بھی مشکل کشا ہے غازی کی
چچا سے کہہ کے غموں سے تمھیں چُھڑا لے گی
سکینہ بی بی کو سب حالِ دل سُنایا کرو

دیا جلا کے سکینہ کے نام کا گھر میں
جنابِ حضرتِ عباس کو بُلایا کرو

اے کاش دیکھ لیں غازی ہمارے گھر کی طرف
عطا ہو آٹھ محرم کو حاضری کا شرف
چچا کے ساتھ بھتیجی بھی میرے گھر آئے
دُعا یہ مانگ کے غازی کی نذر کھایا کرو

دیا جلا کے سکینہ کے نام کا گھر میں
جنابِ حضرتِ عباس کو بُلایا کرو

تُم اِس کے نام کی منت اُٹھا کے مانگو دُعا
حُسین صدقے میں اِس کے کریں گے بیٹی عطا
تمھارے گھر میں جب آجائے چاند سی بیٹی
کنیزِ بالی سکینہ اُسے بنایا کرو

دیا جلا کے سکینہ کے نام کا گھر میں
جنابِ حضرتِ عباس کو بُلایا کرو

جسے نمازوں میں مانگا سُکوں سُکوں کہہ کر
سُکون کیسے مِلے وہ نظر نہ آئے اگر
اِسے بُلا کے یہ اکثر حُسین کہتے تھے
سکینہ ہم سے کبھی دُور تم نہ جایا کرو

دیا جلا کے سکینہ کے نام کا گھر میں
جنابِ حضرتِ عباس کو بُلایا کرو

سلام اُس پہ جو گرتی سنبھلتی رہتی تھی
وہ جسکے گالوں کی رنگت بدلتی رہتی تھی
طمانچے کھا کے وہ ظالم رو کے کہتی رہی
میں اک یتیم ہوں مجھ پہ نہ ہاتھ اُٹھایا کرو

دیا جلا کے سکینہ کے نام کا گھر میں
جنابِ حضرتِ عباس کو بُلایا کرو

یہ زائرین سے ذیشان اور رضا کہہ دو
کسی کا شام اگر کربلا سے جانا ہو
لحد پہ بی بی کی اِک مشک ساتھ لے جا کر
یہ پانی بھیجا ہے عباس نے بتایا کرو

دیا جلا کے سکینہ کے نام کا گھر میں
جنابِ حضرتِ عباس کو بُلایا کرو