سجّادؑ کے جگر کا ، آنکھوں سے خوں رواں
روتی زمیں ہے ساری، روتا ہے آسماں
یہ کون سا جواں ہے ، جس کا ہے سَر جُھکا
لگتا ہے بے کسوں کا ، سالارِ قافلہ
طوقِ گراں گلے میں ، پیروں میں بیڑیاں
کرب و بلا میں جس کے بابا کا سر کٹا
بے کس تھا دیکھتا تھا ، کچھ بھی نہ کر سکا
جس کا جوان بھائی ، کھاتا تھا برچھیاں
نازک سی ایک بچی کے ہاتھوں میں رسن
ہاتھوں سے منہ چُھپا کر ، روتی تھی خستہ تن
زخمی ہیں کان اُس کے ، زخمی کلائیاں
پتھر نہ مارو ٹھہرو ، پہچانو تم ذرا
یہ بی بیاں نبی کے گھر کی ہیں با خدا
بازار میں لے آئے ، زہراؑ کی بیٹیاں
بابا کے سر سے عابدؑ کہتا تھا نوحہ گر
کیسے جئے گی اکبرؑ کے سر کو دیکھ کر
دیتی رہی ہے مادرِ ، اکبرؑ دُہائیاں
تھک کر کبھی رُکی جو زینبؑ شکستہ تن
نیزوں سے ظالموں نے زخمی کیا بدن
مثلِ حسینؑ زینبؑ ، کی توڑی پسلیاں
رضوانؔ نے سنی ہیں ماؤں کی سسکیاں
بہنوں کی آہ و زاری بوذرؔ پہ ہے گَراں
اب کون ہے کرے جو مُشکل کشائیاں