الاماں الاماں الاماں الاماں
قبرِ نبی پہ آ گئیں زہرا کی بیٹیاں
نانا سنائوں حال میں کیسے بازار کا
مجمع شرابیوں کا تھا اور ہم تھے درمیاں
قاتل ہمیں حسین کے دربار لے گئے
سر پر نہیں تھی چادریں ہاتھوں میں رسـیّاں
نانا میں روتی رہ گئی فریاد نہ سنی
گردن پہ رک نہیں سکا خنجر جو تھا رواں
نانا دکھاؤں آپ کو ظالم کے ظلم مَیں
بازو پہ میرے آج بھی دُرّوں کے ہیں نشاں
رو کے لحد پہ رکھ دیا کربل سے جو بچا
کُرتا وہ خوں بھرا ہوا جھولے کی لکڑیاں
رضوان لکھ کے رو پڑے شہزادیوں کا حال
قبرِ نبی پہ گونجتی ہیں آج سسکیاں