فاطمہ سے اِذن لے کے کر رہا ہوں ابتدا
فکر کی معراج ہو یہ آرزو ہے مجتبیٰؑ
خِلقتِ آدم سے پہلے روزِ محشر کے بھی بعد
جس زمانے میں بھی دیکھا چار سُو ہے مجتبیٰؑ
سورۃءِ کوثر کی ہیں مصداق زہراؑ بالیقیں
اوّلیں تفسیرِ کوثر کی نمو ہے مجتبیٰؑ
ہاں فقط صورت میں ہی ہمشکلِ پیغمبرؐ نہیں
سیرت و کردار میں بھی ہو بہو ہے مجتبیٰؑ
زہرِ قاتل نے کئی ٹکڑے جگر کے کر دئے
یوں شہیدوں کی صفوں میں سرخرو ہے مجتبیٰؑ
رک نہیں پاتے ہیں نالے زینبؑ و کلثومؑ کے
خون میں غلطان اُن کے روبرو ہے مجتبیٰؑ
نہ دیا کرنے دفن نانا کے پہلو میں حسنؑ
ظالموں نے تیروں سے کی گفتگو ہے مجتبیٰ
بھائی بہنوں نے نکالے میّتِ شبّرؑ سے تیر
جسم سے پھر ہو گیا جاری لہو ہے مجتبیٰؑ
اشک آنکھوں سے رواں ہیں آصف و رضوان کے
چشم اُن کی غم میں تیرے باوضو ہے مجتبیؑ