زخمی ہوا ہے تیروں سے ہئے تابوت حسنؑ کا
اور سرخ ہو گیا ہے ہئے رنگ بھی کفن کا
اپنے جگر کو تھامے شبّرؑ تڑپ رہے ہیں
بھائی کی بے کسی پر شبّیرؑ رو رہے ہیں
دو جگ میں ہو رہا ہے ماتم شہِ زمنؑ کا
عباسؑ کو وفا نے پابند کر دیا ہے
ورنہ جنازہ روکے کس میں یہ حوصلہ ہے
سینے میں ہو رہا ہے احساس اِک گھٹن کا
تابوتِ مجتبیٰؑ پر جو تیر آ رہے ہیں
آلِ نبیؑ کے دل پر وہ ظلم ڈھا رہے ہیں
مرجھا گیا ہے غنچہ زہراؑ تِرے چمن کا
شبّرؑ کا لاشہ واپس شبّیرؑ لا رہے ہیں
زینبؑ کے ساتھ مل کر پیکاں نکالتے ہیں
جاری ہوا لہو پھر حیدرؑ کے گلبدن کا
فروہؑ نے جو تھا دیکھا یثرب میں خونیں منظر
کرب و بلا کے بن میں قاسمؑ کو وہ بتا کر
فروہؑ اتارتی ہے صدقہ بِنِ حسنؑ کا
رضوان کا یہ نوحہ قیصر نے یوں پڑھا ہے
ماتم بپا ہوا ہے گریہ نہ رک سکا ہے
مولا نے اِذن بخشا دونوں کو اِس سخن کا
-----------------------------
اُمّت نے سیّدوں پر کیسا ستم کیا ہے
احمد کے لاڈلے کو زہرِ دغا دیا ہے
ماحول ہرطرف ہے ہئے رنج محن کا
نانا کے بعد امّاں امّاں کے بعد بابا
سیدانیوں کے دل پر بڑھتا گیا ہے صدمہ
باقی ابھی ہے صدمہ اِک بھائی بے وطن کا