Zainab ne kaha baap ke qadmo se lipat kar
Efforts: Zakir Hussain

وہ کربلا وہ شام غریباں وہ تیرگی
وہ زینبؑ حزیں وہ حفاظت خیام کی

آیا وہ ایک سوار قریب خیام شاہؑ
بیٹی علیؑ کی غیض میں سوۓ فرس بڑھی

الٹی نقاب چہرے سے اپنے سوار نے
پیش نگاہ زینبِؑ مظلوم تھے علیؑ

ہر چند صابرا تھی بہت بنت فاطمہ
بے ساختہ زبان پر یہ فریاد آگئ

زینبؑ نے کہا باپ کے قدموں سے لپٹ کر
اب آے ہو بابا
جب لٹ گیا پردیس میں اماں کا بھرا گھر
ہاۓ - جب لٹ گیا پردیس میں اماں کا بھرا گھر
اب آۓ ہو بابا

بابا اگر آنا ہی تھا خالق کی رضا سے
اس وقت نہ آۓ
جب خاک پر دم توڑ رہا تھا میرا اکبرؑ
ہاۓ - جب خاک پر دم توڑ رہا تھا میرا اکبرؑ
اب آۓ ہو بابا

کٹ کٹ کے گرے نہر پہ جب بازو عباسؑ
تو کوئ نہ تھا پاس
اس وقت صدا آپ کو دیتا تھا دلاور
ہاۓ - اس وقت صدا آپ کو دیتا تھا دلاور
اب آۓ ہو بابا

جب فرش زمین بامِ فلک لرزہ بجا تھا
اس وقت کہاں تھے
جب باپ کے چلو میں تھا خون علی اصغرؑ
ہاۓ - جب باپ کے چلو میں تھا خون علی اصغرؑ
اب آۓ ہو بابا

جب بھائ کا سر کٹتا تھا میں دیکھ رہی تھی
حضرت کو صدا دی
سر کھولے ہوۓ روتی تھی میں خیمے کے در پر
ہاۓ - سر کھولے ہوۓ روتی تھی میں خیمے کے در پر
اب آۓ ہو بابا

جب لوگ بچا لے گۓ لاشے شہداء کے
حق اپنا جتا کے
بس ایک تن شبیرؑ کا پامالی کی زد پر
ہاۓ - بس ایک تن شبیرؑ کا پامالی کی زد پر
اب آۓ ہو بابا

جب بالی سکینہؑ کے گہر چھینے گۓ تھے
لگتے تھے طمانچے
حسرت سے مجھے دیکھتی تھی بانوئے مضطر
ہاۓ - حسرت سے مجھے دیکھتی تھی بانوئے مضطر
اب آۓ ہو بابا

جب شام کے قزاق ہمیں لوٹ رہے تھے
خیموں کو جلا کے
آپ آگۓ ہوتے تو نہ چھنتی میری چادر
ہاۓ - آپ آگۓ ہوتے تو نہ چھنتی میری چادر
اب آۓ ہو بابا

کیا آپ نے فردوس سے یہ دیکھا نہ ہوگا
کیا حشر بپا تھا
جب پشت سے بیمار کی کھینچا گيا بستر
ہاۓ - جب پشت سے بیمار کی کھینچا گيا بستر
اب آۓ ہو بابا

ایک رات کے مہمان ہیں پھر قید سلاسل
اب آنے سے حاصل
بازار میں ہم صبح کو جائيں گے کھلے سر
ہاۓ - بازار میں ہم صبح کو جائيں گے کھلے سر
اب آۓ ہو بابا

شاہد رخ حیدر پر بکھر جاتے تھے آنسو
جب کھول کے گیسو
چلاتی تھیں زینبؑ میرے بابا میری چادر
ہا‌ۓ - چلاتی تھیں زینبؑ میرے بابا میری چادر
اب آۓ ہو بابا

جب لٹ گيا پردیس ميں اماں کا بھرا گھر
ہاۓ - جب لٹ گيا پردیس ميں اماں کا بھرا گھر
اب آۓ ہو بابا