کیسی یہ شام آئی اولادِ سیدہؑ پر
سجادؑ رو رہے ہیں ، زینبؑ سے منہ چُھپا کر
اک سمت بے کفن ہے بھائی کا اُسکے لاشہ
عباسؑ کی بہن کا باقی رہا نہ پردہ
اب سوچتی ہے زینبؑ مانگے کفن یا چادر
بازو کہیں پڑے ہیں لاشہ کہیں پڑا ہے
زینب کی بےکسی پر غازیؑ تڑپ رہا ہے
روتی ہے بے کسی بھی فرش عزا بچھا کر
جو گھر میں دو قدم بھی پیدل نہیں چلی ہے
اِک دن میں وہ ہی زینبؑ عباسؑ بن گئی ہے
پہرے پہ آگئی ہے تنہا علم اٹھا کر
سجادؑ سے لپٹ کر کہتی رہی سكینہؑ
احساس ہو رہا ہے میں ہوگئی یتییمہ
ظالم ڈرا رہا ہے نیزا دکھا دکھا کر
لاشوں كے درمیاں وہ بابا کو ڈھونڈتی ہے
منہ اپنا پیٹ کر یہ فریاد کر رہی ہے
قدموں میں ہی سُلا دو بابا مجھے بلا کر
جب آگئے نجف سے بیٹی کو ملنے بابا
زانو پہ رکھ کے سر یہ کہنے لگی وہ دُکھیا
زینبؑ اجڑ گئی ہے کرب و بلا بسا کر
خیموں كے ساتھ جھولا بستر بھی جل گیا ہے
ناموسِ مصطفیٰؐ کو باغی کہا گیا ہے
لے جائینگے صبح کو قیدی ہمیں بنا کر
گزرے گی کیسی یاور مقتل سے شاہزادی
عابدؑ نے رات مومن یہ سوچ کر گزاری
زینبؑ کا نام لے گا ظالم تو مسکرا کر