روزہ داروں کرو برپا ماتم
چل گئی تیغ حیدرؑ کے سر پر
خوں میں غلطاں ہے شاہِ دو عالم
چل گئی تیغ حیدرؑ کے سر پر
ظلم کی آندھی ایسی چلی ہے
ضرب کاری لعیں کی لگی ہے
ہو گئی خون سے آنکھ پُر نم
چل گئی تیغ حیدرؑ کے سر پر
خون بہتا ہے حیدرؑ کے سر سے
زرد چہرہ ہے سَم کے اثر سے
شہؑ کے سینے میں گھٹنے لگا دم
چل گئی تیغ حیدرؑ کے سر پر
گھر میں حیدرؑ کے آفت ہے آئی
بیٹیاں دے رہی ہیں دُھائی
کیسے جھیلیں گی بابا کا یہ غم
چل گئی تیغ حیدرؑ کے سر پر
روتے جاتے ہیں شبیرؑ و شبرؑ
گریہ پھر سے ہے زہراؑ کے گھر پر
غم ہوا تھا نہ ماں کا ابھی کم
چل گئی تیغ حیدرؑ کے سر پر
سُن کے کلثومؑ و زینبؑ کے نالے
رو رہے ہیں سبھی کنبے والے
خاک سر پر اُڑاتے ہیں باہم
چل گئی تیغ حیدرؑ کے سر پر
برپا کون و مکاں میں فغاں ہے
غم میں ڈوبی نماز و اذاں ہے
دونوں عالم میں ہے شہہؑ کا ماتم
چل گئی تیغ حیدرؑ کے سر پر
لکھّا رضوان نے ایسا نوحہ
خوں بہاتے ہیں سب اہلِ گریہ
اشک بہتے ہیں آنکھوں سے پیہم
چل گئی تیغ حیدرؑ کے سر پر