زینبؑ تِرے غازیؑ کی جہاں لاش پڑی ہے
حسنینؑ کی ماںؑ آ کے وہاں روتی رہی ہے
زینبؑ کو بڑا مان تھا غازیؑ کی وفا پر
یثرب سے چلی آئی تھی ارمان سجا کر
عباسؑ چلے رن کو وہ صدمے سے گِری ہے
مشکیزہ لئے نہر پہ عباسؑ چلے ہیں
پانی ابھی آئے گا چچا کہہ کے گئے ہیں
سوکھے لبوں سے بچّی یہ بتلاتی رہی ہے
بازو کٹے عباسؑ کے جب نہر کنارے
سرورؑ کو مدد کے لئے یہ کہہ کے پُکارے
یہ آخری سانسیں ہیں قضا آئی کھڑی ہے
شہؑ اپنی کمر تھام کے گرتے ہیں زمیں پر
فرماتے ہیں غازی کا لہُو مَل کے جبیں پر
عباسؑ سہارا دو کمر ٹوٹ چکی ہے
عباسؑ چچا دیکھو کہ دردوں کی ہوں ماری
لوٹ آئو چچا جلدی مِرا خون ہے جاری
ظالم کے تمانچوں سے مرِی سانس رُکی ہے
بھائی بھی نہیں باقی نہیں سر پہ ہے چادر
اب کیسے جیوں گی میں بہت ہوتی ہے مضطر
زینبؑ دُکھوں کی شب میں کھڑی سوچ رہی ہے
عباسؑ کے نوحے پہ بہت آہ و فغاں ہے
ماتم کی صدا سُن کے فضا گریہ کناں ہے
رضوانؔ کی آنکھوں میں بسی آج نمی ہے