دلوں میں غم تو ہے پر آبروئے غم نہیں باقی
عقیدت کو جو گرماتا ہو وہ ماتم نہیں باقی
ہماری آنکھ میں تہذیب کا زم زم نہیں باقی
پئے تعمیرِ امت کوششِ پیھم نہیں باقی
مئے اِخلاص کا حاصل ریاکاری نہ بن جائے
میں ڈرتا ہوں عزاداری اداکاری نہ بن جائے
عجب حالت ہے حُر بننے کی تیاری نہیں کرتے
عزائے شہہؑ كے مقصد سے وفا داری نہیں کرتے
بظاہر جاگتے ہیں کارِ بیداری نہیں کرتے
جو لائے انقلاب ایسی عزاداری نہیں کرتے
کہاں سے آئے گا یہ عہد بد رفتار جنبش میں
ہَم ہی مصروف ہیں بے روح جذبوں کی نمائش میں
شریعت كے گلے کو کاٹتی تلوار رسموں کی
کھڑی کر دی مقابل دین كے دیوار رسموں کی
بنی جب سے جہالت قافلہ سالار رسموں کی
عزا كے نام پر ہوتی ہے بس تکرار رسموں کی
رواجوں کا اندھیرا کھا گیا نورِ حقیقت کو
بدل ڈالا ہے کچھ لوگوں نے تصویر شریعت کو
شہیدوں كے ہدف سے دور ہوتے جا رہے ہیں ہم
كہ اب اپنے شرف سے دور ہوتے جا رہے ہیں ہم
کہ موتی اور صدف سے دور ہوتے جا رہے ہیں ہَم
حقیقت میں نجف سے دور ہوتے جا رہے ہیں ہَم
لہذا ذہن و دل كے بند دروازوں کو کھولیں ہم
ذرا سا آؤ اپنی اِس حالت پہ رَو لیں ہَم
بنا اعمال كے آنسو سے جنت مل نہیں سکتی
اگر کردار میلا ہو تو عزت مل نہیں سکتی
کسی ملت کو بس نعروں سے راحت مل نہیں سکتی
فقط رونے سے مقصد کو حفاظت مل نہیں سکتی
سنو رسموں كے ریگیستان میں سر مت کھپاؤ تم
حسینی ہو تو میدانِ عمل میں آگے آؤ تم
علی اکبر كے جذبوں کی حرارت ہو جوانوں میں
برائے دینِ حق شوق شہادت ہو جوانوں میں
گناہوں سے بچیں اتنی شجاعت ہو جوانوں میں
علی كے علم کی تقسیم دولت ہو جوانوں میں
جہاں ایسی عزادری كے کل آثار ملتے ہیں
وہاں سوئے ہوئے افراد بھی بیدار ملتے ہیں
محرم نام ہے خود کو برائی سے بچانے کا
محرم نام ہے تاریکیاں دِل سے مٹانے کا
محرم نام ہے حُر کی طرح سر کو جھکانے کا
محرم نام ہے شبیرؑ كے لشکر میں آنے کا
ہمارے غم منانے کا اگر ہر ڈھب حسینی ہو
زمانے بھر کی ہر اک قوم کا مذہب حسینی ہو