آ جائو اے سکینہؑ ، تجھے لُوری میں سناؤں
دکھیاری تیری ماں ہوں
تِرے بابا تو نہیں ہیں ، سینے پہ میں سُلاؤں
دکھیاری تیری ماں ہوں
تجھے خوف یہ بہت ہے ، کہیں شِمر آ نہ جائے
پھر سے نہ ظلم ڈھائے
آغوش میں چٓھپا کر ، تیرا خوف میں مِٹاؤں
دکھیاری تیری ماں ہوں
آ جائو اے سکینہؑ ، تجھے لُوری میں سناؤں
دکھیاری تیری ماں ہوں
درَوں سے جسم زخمی ، کانوں سے خوں ہے جاری
رو رو کے شب گزاری
نادِ علی سنا کے ، مرحم تجھے لگاؤں
دکھیاری تیری ماں ہوں
آ جائو اے سکینہؑ ، تجھے لُوری میں سناؤں
دکھیاری تیری ماں ہوں
ربل سے تا بہ کوفہ ، کوفے سے تا بہ زنداں
اے تشنہ لب پریشاں
میری جاں تجھے پلانے ، پانی کہاں سے لاؤں
دکھیاری تیری ماں ہوں
آ جائو اے سکینہؑ ، تجھے لُوری میں سناؤں
دکھیاری تیری ماں ہوں
تیری سسکیوں سے بیٹا ، دل ڈوبنے لگا ہے
دم ٹوٹنے لگا ہے
اصغر کو کھو چکی ہوں ، کہیں تجھ کو کھو نہ جاؤں
دکھیاری تیری ماں ہوں
آ جائو اے سکینہؑ ، تجھے لُوری میں سناؤں
دکھیاری تیری ماں ہوں
کیوں بولتی نہیں ہو ، لب کھولتی نہیں ہو
ناراض تو نہیں ہو
میری جان آنکھیں کھولو ، بابا کو میں بُلاؤں
دکھیاری تیری ماں ہوں
آ جائو اے سکینہؑ ، تجھے لُوری میں سناؤں
دکھیاری تیری ماں ہوں
رضوان حالِ زنداں ، لکّھوں نہیں ہے آساں
کہتی تھی مضطرب ماں
بیٹی بتا دے کیسے ، تیری قبر میں بناؤں
دکھیاری تیری ماں ہوں
آ جائو اے سکینہؑ ، تجھے لُوری میں سناؤں
دکھیاری تیری ماں ہوں