شہہ کا یہ امتحان کیسا ہے
ہاے اکبر کا دم اکھڑتا ہے
نوجوانی کا باغ اجڑتا ہے
ہاے اکبر کا دم اکھڑتا ہے
باپ كے سامنے جوان بیٹا
خاک پر ایڑیاں رگڑتا ہے
پانی پانی پکارتا ہے پسر
باپ خود تِین دن سے پیاسا ہے
آؤ دیکھو خلیل صبر حسین
ساتھ نیزے كے دل نکلتا ہے
صبر کیسے کرے حسین غریب
ہَم شبیہ نبی بچھڑتا ہے
شمر نازک گلا سكینہ کا
کس كے رسی سے کیوں جکڑتا ہے
کیسے اُٹھے حسین دھرتی سے
درد دامن پکڑ كے بیٹھا ہے
کیسے دیکھے گی مادر اکبر
گرم ریتی پہ لال سوتا ہے
کوئی زینب سے پوچھے یہ جا کر
جیتے جی کوئی کیسے مرتا ہے
جب بھی ریحان بو اَذان سحر
روضہ شاہ دیں لرزتا ہے
دم نہیں توڑتے علی اکبر
ساتھ ماں کا چمن اجڑتا ہے