نانا در بَستا رہے ہمیں مڑ کے کبھی نہیں آنا
کرب و بلا کے جنگل میں ہمیں اپنا دیس بسانا
جب بھی تیری یاد آئے گی
مجھ کو سفر میں رُلوائے گی
سامنے اکبرؑ کو بِٹھلا کے
تیری یاد منانا
صغراؑ کو بھی رلوائے گی
یاد ہماری تڑپائے گی
سب کی طرف سے صغراؑ بیٹی
روز ہے دیا جلانا
تپتی ریت پہ لاشیں ہوں گی
دل میں تیری یادیں ہوں گی
وعدہ نانا بچپن کا ہمیں
کربل جا کے نبھانا
قتل علیؑ کے لال ہوئیں گے
لاشے سب پامال ہوئیں گے
جب مظلوم کے خُشک گلے پہ
خنجر شِمر چلانا
خاک میں سب ہی مل جائیں گے
خیمے سارے جل جائیں گے
زینبؑ کو شعلوں میں گِھر کے
عابدؑ کو ہے بچانا
دیتے ہیں شبیرؑ دھائیاں
ساتھ میرے ہیں زہراؑ جائیاں
زینبؑ ، فروہؑ اور سکینہؑ
شام سفر پہ جانا
درباروں میں پیشی ہو گی
کوئی نہ خیر اندیشی ہو گی
سیّد زادیوں کو بالوں سے
چہرہ اپنا چُھپانا
ماں زہراؑ بھی بُلاتی ہوں گی
اشکِ عزا بھی بہاتی ہوں گی
کاش حسینؑ کہیں رضوان سے
نوحہ آ کے سُنانا