کر رہا ہے میرا دِل بیان کربلا
مجھ سے عاشور کی شب کا منظر کہا
سینہءِ شاہؑ پر بنتِ شاہ ھدیٰ
اور شبیرؑ کہتے تھے یہ بڑھا
ہم کو جانا ہے کل کرنے وعدہ وفا
تم پہ آجائے گا صبر کا مرحلہ
بات ساری سكینہؑ نے شہہؑ کی سنی
اور جواباَ بس اتنا ہی کہتی رہی
اچھا بابا سُلانے تو آؤ گے نا
روز چہرہ دکھانے تو آؤ گے نا
بولے شبیرؑ اے میری نور نظر
تم کو کرنا ہے اب شام تک کا سفر
تم کو قیدی بنائیں گے اب اہلِ شر
بولی شہزادی مجھکو نہیں کوئی ڈر
تم کہو تم سلانے تو آؤگے نا
روز چہرہ دکھانے تو آؤگے نا
شاہ کہنے لگے اے میری لاڈلی
تم پہ آئے گی اب شامِ غم کی گھڑی
آگ دامن میں ہوگی تمہارے لگی
بولی وہ فکر مجھکو نہیں ہے کوئی
میرا دامن بُجھانے تو آؤ گے نا
روز چہرہ دکھانے تو آؤگے نا
مضطرب دِل سے کہنے لگے شاہِ دین
تیری قسمت میں بیٹی سکوں اب نہیں
اب تمانچے لگائے گا شمرِ لعیں
سُن کے یہ بات کہنے لگی وہ حزین
شمر سے تم بچانے تو آئو گے نا
روز چہرہ دکھانے تو آؤگے نا
اچھا بابا سُلانے تو آؤ گے نا
روز چہرہ دکھانے تو آؤ گے نا
پِھر کیا شہہ نے بیٹی سے کچھ یوں سخن
سب حرم ھونگے اب تو اسیرِ مِہن
تیرے ہاتھوں میں بھی پِھر بندھے گی رسن
بولی یہ بات سن کے وہ تشنہ دھان
تم گلے سے لگانے تو آئو گے نا
روز چہرہ دکھانے تو آؤگے نا
روکے شبیرؑ نے اُسکے بوسے لیے
بولے رخسار بھی ھونگے زخمی تیرے
تیرے رونے کے شہزادی دن آ گئے
بولی تم کیسے دیکھو گے روتے ہوئے
ہاں مجھے چُپ کرانے تو آؤ گے نا
روز چہرہ دکھانے تو آؤ گے نا
بڑھتی جاتی تھی بے چینی شبیرؑ کی
ہر ستم وہ اُٹھانے پہ راضی ہوئی
زندہ بابا نہ ھونگے سمجھ نا سکی
سن کے سب مشکلیں بس یہ کہتی رہی
گر میں روٹھی منانے تو آئو گے نا
روز چہرہ دکھانے تو آؤگے نا
لکھ کے سلمان دِل رو رہا ہے میرا
زین جب شاہِ والا نے روکر کہا
اب تو زندان مرقد بنے گا تیرا
بیٹی صابر کی تھی بولی وہ صابرہ
میرا لاشا اُٹھانے تو آئو گے نا
روز چہرہ دکھانے تو آؤ گے نا
اچھا بابا سُلانے تو آؤ گے نا
روز چہرہ دکھانے تو آؤ گے نا