دی سكینہ نے صدا دشت میں بابا بابا
جلد آؤ كہ جلا جاتا ہے خیمہ بابا
میں وطن جاؤں گی ملنے كے لئے دادی سے
اِن مظالم سے اگر بچ گئی زندہ بابا
ویسے امید نہیں ہے كہ میں بچ پاؤں گی
اِس قدر شمر کا پڑتا ہے طمانچہ بابا
شمر نے باندھی تھی جس وقت کلائی میں رسن
قبر میں تڑپا تھا بیشیر کا لاشہ بابا
سوچتی ہوں كے اگر مر گئی میں زنداں میں
کون دے گا میری اماں کو دلاسہ بابا
ہڈیاں پیاس کی شدت سے میری سُوکھ گئیں
جل رہا ہے میرے سینے میں کلیجہ بابا
ہائے سجادؑ میرا جکڑا ہے زنجیروں میں
کس طرح میرا اٹھائے گا جنازہ بابا
کون غربت پر میری شب میں جلائے گا چراغ
جب رِہا ہوں كے چلا جائے گا کنبہ بابا
دستِ شفقت نہ کس نے میرے سر پر پھیرا
تازیانوں سے دیا لوگوں نے پُرسہ بابا
میرے عمو سے ترائی پہ یہ کہنا جا کر
جل گئی آگ كے شعلوں سے سكینہؑ بابا
اب تو باقی نہیں ہے کوئی سوائے بیمار
کس طرح ہو گا میرا دفن جنازہ بابا
بالیاں چھین لیں اعدا نے ہماری آ کر
دیکھو کانوں سے لہو بہتا ہے تازہ بابا