گھر سے چلا تھا ایک نمازی
خون میں واپس آیا ہے
پِھر سے یتیمانِ زہراؑ پر
وقت سحر مہراب اَذان سے
آئی سدا پِھر نوحوں کی
وارثِ قبلہ زخمی ہوا ہے
کعبہ جبیں گھر آیا ہے
زینبؑ سے كلثومؑ سے پوچھے
پوچھے کوئی حسنینؑ سے یہ
کوفہ میں اکّیس کا سورج
کیسی قیامت لایا ہے
کیسی شقاوت ہے امت کی
تیغ چلی اُس كے سَر پر
ہیں مس . . . تھا جس كے گھر کا
سارے جہاں نے کھایا ہے
صف میں کھڑے تھے جتنے نمازی
صف کو بچھائے ماتم کی
آگے بڑھا اک . . .
فرشِ اذا بچھوایا ہے
تھامے ہوا بابا کو گھر میں
لائے ہیں جب فرزند علیؑ
ہائے کسے کہتے ہیں یتیمی
قسمت نے یہ سمجھایا ہے
ٹکڑے جگر ہے چاک گریباں
خاک ہے بکھرے بالوں پہ
بچپن میں عباسؑ كے سَر پر
غم کا اندھیرا چھایا ہے
فرشِ عزا سلمان بچھا کر
کیوں نہ کریں نوحہ ماتم
سارے عزادارنِ علیؑ کا
ذکرِ علیؑ سرمایہ ہے