گھر سے جب بہرِ سفر سیدِ عالم نکلے
سَر جھکائے ہوے بادییدہءِ پُر نم نکلے
خیوش و فرزند کمر باندہ کے پیہم نکلے
روکے فرمایا کے اِس شہر سے اب ہم نکلے
رات سے گریائے زہراؑ کی صدا آتی ہے
دیکھیں قسمت ہمیں کس دشت میں لے جاتی ہے
رخ کیا شہہؑ نے سوئے قبرِ شہنشاہِ انام
بھر تسلیم جحویکی موتتاسیلی بیب سلام
اِذْن پڑھکر جو گئے قبر كے نزدیک امام
ارض کی آیا ہے آج آخری روکسات کو غلام
یہ مکان ہم سے اب آئی شاہی زمان چوت تھا حیا
آج حضرت کے ناواسی سے وطن چوت تھا ہے
چین سے سب ہے گھروں میں مجھے ملتا نہیں چین
ساقط آفت میں ہے اب اپکا یہ نورول آئیں
ٹکڑے دِل ہوتا ہے جب روکے حرام کرتے ہے بین
ننھے بچو کو بھلا لے کے کدھر جاییا حسین
شہر میں چین نا جنگل میں امان ملتی ہے
دیخییا قبر مسافر کو کاہان ملتی ہے
اب میرے سَر كے لیے تیز ہوئے ہیں خنجر
اہل کی شَر پہ کمر باندھے ہیں یا قایری بشر
آپ نے ڈی تھی اسی روزہ کی اماں کو قبر
والیدا روئے تھی دو روز تلک پیٹ كے سَر
اِس ناواسی کو مگر بھول ں جانا حضرت
ذبہ كے وقت مدد کرنے کو آنا حضرت
ہ ہو دن ہے کے پرندے بھی نہیں چوردتی گھر
مجھ کو دَر پیش ہیں ان روزوں میں آفت کا سفر
ہے کہیں قتل کا سامان کبھی لٹ جانے کا دَر
سات ہے بچوں کا اے بادیشاہی جینو بشر
تنگ جینے سے ہوں پاس اپنے بلالو نانا اپنی
تربت میں ناواسی کو چیپالو نانا
یہ بیان کرکے جو تعویذ سے لپٹے سرور
یوں حیلی قبر كے تھارای ضریع انور
آئی تربت سے یہ اوازیی حبیب –ی دوار
تیری غربت کے میں صدقے میرے مظلوم پسار
کوئی سمجھا نا میری جوود کا پالا تجھ کو
ہے ادا نئی مدینے سے نکالا تجھ کو
آئی میرے جایسوون و والے میرے صابر شبیر
میرے بیکاس میرے مظلوم مسافر شبیر
نا رہا کوئے تیرا یاور و ناصر شبیر
ہے آئی غور –ی-جاریبا کے موجور شبیر
تو جاحاین جاییاجا پیارے وہیں چلتا ہوں میں
خاک وداتا ہوا تربت سے نکلتا ہوں میں
کئی دن سے تیری مدار کو نہیں قبر میں چین
آئے تھی شب کو میرا پاس یہ کرتی ہوئی بین
گھر میرا لٹ تا ہے فریاد رسول اس ثقلین
صبحا کو اپن وطن چھوڑ كے جاتا ہے حسین
کہنے آئی ہوں كے منہ قبر سے مودون گی میں
اپنے بچے کو اکیلا تھو نا چودوں گی میں
سونکیی یہ شاہ نئے کیا آخری روکسات کا سلام
نکلے روٹ ہوے جب روزہ –ی انور سے امام
شہہ سے اُس دم یہ کیا رَو رَو كے زینب نئے كلام
قبر پر ماں کی مجھے لےچالو یا شاحیی انعم
لوگ ہمراہ ہے ماحمیحئین کیوں کر رووو
ماں کی تربت سے پِھر اک بات لپٹ کر روووح
ماں کی تربت پہ گئے شاہ با چشمی قون باڑ
اتری ماحمیل سے بسد آہ و فوجاحان زاینابی زار
دورد کر قبر سے لپٹے جو یمامی ابرار
ہات زہرہ كے لحد سے نکل آئی اک باڑ
آئی آواز نا رَو دِل کو قالاق ہوتا ہے
قبر ہلتی ہے کلیجہ میرا شاق ہوتا ہے
ہاں بولاوو میرا عباس ی-دیلاوار ہے کدھر
وہ فدا ہے میرے بچے پہ میں صدقے اس پر
شکم ی-گھایر سے ہے پر ہو ویرا ہے پسار
یہ سیڈ سن كے بیرادار کو پکارے سرور
ابھی راحوار کو آگے نا بڑھاؤ بھائی
یاد فرماتی ہے اماں ادھر آوو بھائی
آکے عباسؑ نے سَر راخدیا پاینی مزار
آئی زہرہ کی سدا میں تیری غربت كے نثار
اپنے پیاروں كے برابر میں تجھے کرتی ہو پیار
دھیان بھائی کی حفاظت کا رہے اے دلدار
کوئی غربت میں اسے مار نہ ڈالے بیٹا
میرا شبیرؑ ہے اب تیرے حوالے بیٹا