یا موسیِٰ كاظمؑ ، ہائے ہائے امام كاظمؑ
کر کر كے یاد سكینہؑ کو ، بغداد کا قیدی روتا ہے
بازارِ شام ہے آنكھوں میں ، سجّادؑ کا لب پر نوحہ ہے
کر کر كے یاد سکینہؑ کو ، بغداد کا قیدی روتا ہے
خود قید جہاں پر كاظمؑ ہے ، ہر دن ہے رات كے جیسا
زندان ہے یہ بھی تنگ مگر ، ہر رات رضاؑ کا بابا
زندانِ شام جو یاد آئے ، دیوار سے سَر ٹکراتا ہے
کر کر كے یاد سکینہؑ کو ، بغداد کا قیدی روتا ہے
ہے دور نگاہوں سے لیکن ، اِس کا بھی جوان ہے بیٹا
جب یاد رضاؑ کی آتی ہے ، رخ کرکے کرب و بلا کا
زخمی اکبرؑ كے سینے كے ، نظروں سے بوسے لیتا ہے
کر کر كے یاد سکینہؑ کو ، بغداد کا قیدی روتا ہے
جب شام كے سائے بڑھتے ہیں ، بڑھتی ہے صدائے گریہ
اک درد سا دِل میں اٹھتا ہے ، کہتے ہے تڑپ کر مولاؑ
ہے ساتھ رضاؑ كے معصومہؑ ، زندان میں سكینہؑ تنہا ہے
کر کر كے یاد سکینہؑ کو ، بغداد کا قیدی روتی ہے
مظلوم پرائے دیس میں ہے ، ڈھارس ہے دِل کو پِھر بھی
مل جائیگا مجھکو غسل و کفن بستی ہے مسلمانوں کی
مظلوم حسینؑ کی غربت پر ، دِل خون كے آنسوں روتا ہے
کر کر كے یاد سکینہؑ کو ، بغداد کا قیدی روتا ہے
ہے چودہ برس سے قید مگر ، پِھر بھی وہ یہی ہے کہتا
عابدؑ کا رکوع اور میرا رکوع ، اک جیسا نہیں ہو سکتا
میں تنہا ہوں وہ ماں بہنیں ، بازار سے لیکر گزرا ہے
کر کر كے یاد سکینہؑ کو ، بغداد کا قیدی روتا ہے
مظلومی ماتم کرتی ہے ، پڑھتی ہے غربت نوحہ
وہ جسکے دادا کو آکر ، جبریلؑ جُھلائیں جھولا
لاشپ اُسکا مزدوروں نے ، بغداد كے پُل پر رکھا ہے
کر کر كے یاد سکینہؑ کو ، بغداد کا قیدی روتا ہے
بغداد كے قیدی نے ہر دم ، عابدؑ پہ کیا ہے گریہ
لیکن اکبر اِس غربت پر ، سجّادؑ بھی روتا ھوگا
زنجیروں میں تھا جکڑا ہوا ، جب كاظمؑ نے دم توڑا ہے
کر کر كے یاد سکینہؑ کو ، بغداد کا قیدی روتا ہے