درد سجادؑ کے قرطاس پہ لائوں کیسے
ہائے روتا ہے قلم لفظ بنائوں کیسے
زخم جو جسم پہ آئے ہین دکھا سکتا ہوں
دل نے جو شام میں کھائے ہیں دکھاؤں کیسے
جن کی مادر کا جنازہ تھا اُٹھا رات کے وقت
سر برہنہ سرِ بازار بھلاؤں کیسے
کربلا کوفہ جو شام میں تکریم ہوئی
روحِ اجداد تڑپتی ہے سناؤں کیسے
رسیاں پاؤں میں چھالے تھے تماچوں کے نشاں
حسرت و یاس کی میت کو اٹھاؤں کیسے
پا بجولا ہوں میں ہے طوقِ گراں زیبِ گلو
اونٹوں سے گرتے ہوئے بچے اٹھاؤں کیسے
ابر تھا پتھروں کا قہقہے بھی طعنے تھے
تنگ بازاروں سے بازاری ہٹاؤں کیسے
نوسو درباری تھے ناموسِ نبی پیش ہوئی
ہوں غیور خوں نہ آنکھوں سے بہاؤں کیسے
اے زمانے کے یزیدو نہ کہو نجفی سے
خاک کی نورسی اوقات دکھاؤں کیسے