کہتی تھی روکر یہ ماں سینے میں دِل ہے تپاں
ایک ہے کڑیل جوان دوسرا ہے بے زبان
دونوں سدھارے جناں دشت میں تنہا ہے ماں
سونا ہے سارا جہاں اجڑا پڑا ہے مکاں
آنكھوں سے خون ہے رواں
ہو علی اکبرؑ کہاں ، ہو علی اصغرؑ کہاں
کرتی ہوں کب سے بُکا دیتے نہیں تم صدا
کیوں ہوئے مجھ سے خفا کیا ہوئی مجھ سے خطا
جس طرح چُھوٹے ہو تم مجھ سے میں تم پر فدا
اِس طرح کوئی پسر ماں سے نہ ہووے جُدا
دشت میں تم میری جاں ہوگئے کس جا نہاں
ہو علی اکبرؑ کہاں ، ہو علی اصغرؑ کہاں
میری امیدیں گئیں میرے سہارے گئے
جن کو سمجھتی تھی جاں ہائے وہ پیارے گئے
پیاس سے تھے جاں بہ لب پیاسے ہی مارے گئے
کرب وبلا میں وہ آہ ظلم سے مارے گئے
ہاتھوں سے خوں ہے رواں تم کو میں پاؤں کہاں
ہو علی اکبرؑ کہاں ، ہو علی اصغرؑ کہاں
مفت جوانی تیری رائگاں اکبرؑ ہوئی
خاک میں پوشیدہ آج صورتِ اصغرؑ ہوئی
سَر سے ردا چھن گئی قید بھی مادر ہوئی
رن میں نہ اب تک اماں مجھ کو میسر ہوئی
تم ہو سدھارے جہاں مجھ کو بلالو وہاں
ہو علی اکبرؑ کہاں ، ہو علی اصغرؑ کہاں
خہمہ جلا گھر لُٹا بعدِ شہہِؑ دو جہاں
اب کوئی ممکن نہیں پوچھنے والا یہاں
اے میرے روحِ رواں اے میرے تاب و تواں
وادیءِ غربت میں آج چھٹ گئی دونوں سے ماں
اِک کا گلا چِھد گیا ایک نے کھائی سِناں
ہو علی اکبرؑ کہاں ، ہو علی اصغرؑ کہاں
بولی مصور یہ ماں غم کی گھٹا چھا گئی
رن میں میرے شیر کو کس کی نظر کھا گئی
ہنسلیوں والا جو تھا اُسکو بھی موت آگئی
گھر کو تو ویراں کیا کرب وبلا بھا گئی
دِل میں ہے اِک كے سناں تیر نے لی اِک کی جان
ہو علی اکبرؑ کہاں ، ہو علی اصغرؑ کہاں