ؑہائے اکبرؑ میرے اکبر
ؑشہ کے دلاور اکبر
ؑبہناکے دلبر اکبر
ؑشبیہہ پیعمبر اکبر
عباس کے مرنے سے ٹوٹی ہے کمر میری
بے نور ہوئی تیرے مرنے سے نظر میری
گھیرے ہوئے ہے مجھ کو دو لاکھ کا یہ لشکر
ڈھونڈوں میں کہا تجھ کو دو مجھ کو صدا اکبر
بے بسی کا عالم ہے
آنکھیں میری پُرنم ہیں
دل میں جو تیرا غم ہے
ہائے اکبر ۔۔۔۔۔
لگتی ہے مجھ کو بیٹا ہر اک قدم پہ ٹھوکر
کیا تُو گیا کے میرا برباد ہو گیا گھر
شادی کا تیرے ارماںدل میں لیے ہے مادر
اُس کو بتائوں کیسے یہ حال تیرا دلبر
کیا میں کہوں گا جا کر
پوچھے جو تیری مادر
کہاں ہے میرا اکبر
ہائے اکبر ۔۔۔۔۔
اے کاش اگر تیری کوئی اولاد اگر ہوتی
تُو خود ہی سمجھ لیتا اس باپ پہ کیا گُزری
مرتے ہوئیے جواں کو دیکھے اگر ضعیفی
دُنیا میں اس سے بڑھ کر ہو گی نہ بدنصیبی
کس سے کروں گا فریاد
ہو گیا جو گھر برباد
جی نہ سکوں تیرے بعد
ہائے اکبر ۔۔۔۔۔
سیرت میں آئینہ ہو صورت میں آئینہ ہو
تُو بولتی ہوئی اک تصویر ِ مصطفیٰ ہو
عدلِ بہادری میں تم مثلِ مرتضیٰ ہو
جان دے کے یہ بتایا تم ابنِ لا فتاح ہو
لُٹ گئی میری دُنیا
غم کا ہے اک سناٹا
مشکلوں کا ہے پہرا
ہائے اکبر ۔۔۔۔۔
مشکل کا مرحلہ ہے بابا یہ ناتواں ہے
کربلا کی خاک پر اب مرنے کو نوجواں ہے
منظر کو دیکھ کر یہ خوں رویا آسماں ہے
منظر لہو لہو ہے دل سوز اک سماں ہے
غم کا چھایا سایہ ہے
تنہا تیرا بابا ہے
موت کا اندھیرا ہے
ہائے اکبر ۔۔۔۔۔
لاشہ میں تیرا لے کر خیمے میں کیسے جائوں
پوچھے اگر سکینہ کیا اُس کو میں بتائوں
پالا تھا جس پھوپھی نے کیا حال میں سُنائوں
حالات ہیں غیر میری ہمت کہاں سے لائوں
اب نہ رہی کوئی آس
نہ رہا بھائی عباس
تُو بھی نہیں میرے پاس
ہائے اکبر ۔۔۔۔۔
کر ب و بلا کے بن میں سرور کی ناتوانی
کیسے رقم ہو احمد بے کس کی یہ ناتوانی
دیکھا ہے ضعیفی نے مرتی ہوئی جوانی
رودادِ غمِ سرور محسن تیری زبانی
اب نہ رہی کوئی آس
نہ رہا بھائی عباس
تُو بھی نہ رہا اب پاس
ہائے اکبر ۔۔