اکبرؑ نہیں آئے اصغرؑ نہیں آئے
دن بیت گیا اب رات ہوئی دلبر نہیں آئے
ہم نامِ علی ہم شکلِ نبی
جُرا،ت تھی سوا غیرت تھی بڑی
لیکن جب مشکل آئی گھڑی
ماں دیتی رہی رو رو کے صدا
اکبر نہیں آئے ۔۔۔
کہتی تھی یہ بانو رو رو
للہ بُلا دو اصغر کو
کیا جانے کس عالم میں ہو
رن کو گئے باپ کے ہاتھوں پر
پھر گھر نہیں آئے
اکبر نہیں آئے ۔۔۔
کیا گزری لال میرے تم پر
کچھ تو بولو جانِ مادر
کیا بات ہوئی رن میں سرور
لے کر تو گئے تھے ہاتھوں پر
لے کر نہیں آئے
اکبر نہیں آئے ۔۔۔
تم پر تو ہے سب حال عیاں
پانی تھا کہاں جو دیتی ماں
اتنی سی بات پہ جان دی جاں
گھر سے گئے ایسے ہو کے خفا
مُڑ کر نہیں آئے
اکبر نہیں آئے ۔۔۔
آجائو اے اصغر آئو
مادر پر لال ترس کھائو
اک بار گلے سے لگ جائو
ممکن ہے لوٹ کہ پھر دلبر
مادر نہیں آئے
اکبر نہیں آئے ۔۔۔
زخمی ہے گلا محبوب ہو تم
بیٹا زخموں سے چُور ہو تم
اب میں سمجھی کیوں دور ہو تم
میدان گئے اے لختِ جگر
کیونکر نہیں آئے
اکبر نہیں آئے