لاشہ جری کا خیمے میں لایا نہ جا سکا
پیاسوں کی تشنگی کو بُجھایا نہ جا سکا
شہہ بولے بھائی ہم سے خفا ہو گئے ہو کیا
دیکھو ہماری سمت ہلائو تو لب ذرا
کیوں بھائی دیکھ کے ہم کو بھُلایا نہ جا سکا
لاشہ جری کا ۔۔۔۔۔
زانو پہ سر رکھے روتے رہے امام
غازی تڑپ کر بولے فداآپ پہ غلام
خدمت کا حق بھی ہم سے چُکایا نہ جا سکا
لاشہ جری کا ۔۔۔۔۔
زخمی میری سکینہ کا مشکیزہ ہو گیا
مولا اب اس کے بعد میں جی کر کروں گا کای
افسوس ہائے وعدہ نبھایا نہ جا سکا
لاشہ جری کا ۔۔۔۔۔
خیمے کی سمت جانے کی باقی رہی نہ تاب
شہہ بولے دونگا کیا میں سکینہ کو جواب
غازی نہیں یہ راز چھُپایا نہ جا سکا
لاشہ جری کا ۔۔۔۔۔
بازو کٹا کے نہر پہ عباس سو گئے
مولا حسین دشت میں بے آس ہو گئے
بھائی کو حالِ دل بھی سُنایا نہ جا سکا
لاشہ جری کا ۔۔۔۔۔
جیتی ہے جنگ کس نے بتا دشتِ نینوا
کس کا طواف کرتی ہے خود نہرِ علقمہ
قبضہ ثمر جاری سے چھُڑایا نہ جا سکا
لاشہ جری کا