عباسؑ پیئے کیسے پانی، عباسؑ کا آقا پیاسا ہے
خیمے میں سکینہؑ پیاسی ہے، اور بچہ بچہ پیاسا ہے
عباسؑ نے جب پینے کو کہا، رہوار نے بھی منہ پھیر لیا
مطلب تھا یہی میں کیسے پیئوں، بے شیرؑ ہمارا پیاسا ہے
عباسؑ پیئے کیسے پانی ۔۔۔۔۔
برسات کا موسم بھی تو نہیں، پانی کا برسنا ناممکن
دریا بھی عدو کی قید میں ہے، شبیرؑ کا کنبہ پیاسا ہے
عباسؑ پیئے کیسے پانی ۔۔۔۔۔
پایا جو سکینہؑ نے پانی، یہ کہہ کے بڑھی مقتل کی طرف
اصغرؑ کو پلاؤں گی پہلے، ننھا میرا بھیا پیاسا ہے
عباسؑ پیئے کیسے پانی ۔۔۔۔۔
جب شیرِ خدا نے پیاسوں کو، کوثر پہ دیا جامِ کوثر
منہ پھیر لیا سب نے کہہ کر، احمدؐ کا نواسا پیاسا ہے
عباسؑ پیئے کیسے پانی ۔۔۔۔۔
بیمار بھی ہے زنجیر بدن سے، بھاری ہےلاغر ہے بہت
دُرّے نہ لگا عابدؑ کے شقی، واللہ یہ بھوکا پیاسا ہے
عباسؑ پیئے کیسے پانی ۔۔۔۔۔
آزاد ہوئی عترت لیکن، زندان میں سکینہؑ ہے اب تک
چھڑکاؤ لحد پر کون کرے، ہر ذرّہ ذرّہ پیاسا ہے
عباسؑ پیئے کیسے پانی ۔۔۔۔۔
اشکوں کے یہ جھرنے آنکھوں سے، چودہ سو برس سے جاری ہیں
سیراب ابھی تک ہو نہ سکا، رومالِ زہراؑ پیاسا ہے
عباسؑ پیئے کیسے پانی ۔۔۔۔۔
عباسؑ کا جس میں ذکر نہ ہو، بے شِیر کی جس میں پیاس نہ ہو
کتنے بھی مصائب ہوں انور، لیکن وہ نوحہ پیاسا ہے
عباسؑ پیئے کیسے پانی ۔۔۔۔۔