زینب یہ رو کے بولی بھیا نہ دل دکھائو
کیا دیر کا سبب ہے یہ تو ہمیں بتائو
مشکیزہ بھر کے جلدی دریا سے لوٹ آئو
بچی کی تشنگی کو تم آکے خود بجھائو
عباس عباس عباس پانی لائو
وہ غمزدہ یقینا یادوں میں کھو گئی ہے
بابا کو ر وتے روتے خود تھک کے سو گئی ہے
یا تشنہ لب سکینہ بے ہوش ہو گئی ہے
پانی کا دیکے چھینٹا تم ہی اسے جگائو
عباس عباس عباس پانی لائو
ہاتھوں میں خالی کوزے بچے لیئے ہوئے ہیں
گرد سکینہ دیکھو حلقہ کئے ہوئے ہیں
بچے نہ جانے کب کا پانی پئے ہوئے ہیں
بن اب مر نہ جائے پانی نہیں پلائو
عباس عباس عباس پانی لائو
اس بے کسی پہ ہائے آتا ہے مجھ کو رونا
پرحول ہے اندھیرا اور خاک کا بچھونا
سینے پہ سونے والی کیا جانے ایسا سونا
پیاسی ہے مضطرب ہے آکر اسے سلائو
عباس عباس عباس پانی لائو
کانوں میں الطش کی آواز آرہی ہے
اور اس پہ فوج اعدائ یہ ظلم ڈھا رہی ہے
ان کو دکھا دکھا کر پانی بہا رہی ہے
بچے ہیں شہہ کے پیاسے اعدائ کو یہ بتائو
عباس عباس عباس پانی لائو
الفت کی آگ دل میں پیہم لگی ہوئی ہے
روزہ تمہارا دیکھے یہ حسرت دلی ہے
زائر بنے تمہارا یہ خواہش ذکی ہے
آنکھوں کی تشنگی کو تم ہی اسے بجھائو
عباس عباس عباس پانی لائو