جو کرے سلام بصد ادب شہہِ تشنہ لب کی جناب میں
تو بہ روزِ حشر عجب نہیں وہ رواں ہو شہہ کے رکاب میں
جو شمیم بوئے حسینؑ تھی وہ عرق میں شہہ کی تھی بوئے خوش
نہ وہ بو ہے عنبر و مِشک میں نہ وہ بو ہے عطر و گلاب میں
جو نہال تازہ ہو باغ میں اُسے کاٹتے نہیں باغباں
یہ عجب ہے اکبرِؑ نوجواں ہوا قتل عین شباب میں
شبِ قتل چونک کے نیند سے یہ پکاریں زینبِؑ دل حزین
مجھے ہائے حسینؑ برہنہ سر نظر آئیں فاطمہؑ خواب میں
ابھی سر کے بالوں سے ماں میری یہ زمین جھاڑ کے کہتی تھی
نہ رہے خلش خس و خار کی میرے گل کے بسترِ خواب میں