کربلا سے جو کبھی ہو کے ہوا آتی ہے
ننھے معصوم کے رونے کی صدا آتی ہے
کسی معصوم کی ہچکی کی صدا آتی ہے
کوئی بیمار نہ پڑھتا ہو تہجد کی نماز
رات کو بیڑوں کی کیوں یہ صدا آتی ہے
منہ پھرا لیتے ہیں عباسؑ ٹپکتے ہیں اشک
نہر کی سمت سے ٹھنڈی جو ہوا آتی ہے
ہاں دھڑکتا نہ ہو مقتل میں کہیں قلبِ ربابؑ
علی اصغرؑ علی اصغرؑ کی صدا آتی ہے
کون سوتا ہے کنارے تیرے اے نہرِ فرات
تیری مٹی سے ابھی بوئے وفا آتی ہے
ماں سمجھتی ہے دلہن لاؤں گی آیا ہے شباب
شہؑ سمجھتے ہیں کہ اکبرؑ کی قضا آتی ہے
جب زیادہ کبھی بیمار میں ہو جاتا ہوں
خود بہ خود میرے لئے خاکِ شفا آتی ہے