دریائے لہو میں دیں كے لیے
احمدؐ کا نواسہ ڈوب گیا
دین اپنا بچانے کی خاطر
اسلام کا تارا ڈوب گیا
نوشاہ کا لاشہ خیمے میں
کس طرح سے سرورؑ لے آئے
ماں جس کی بلائیں لیتی تھی
وہ خون میں چہرہ ڈوب گیا
ہمشکلِ نبیؑ مرنے کو چلا
ماں سَر کو جھکائے روتی رہی
چہرے کی اُداسی کہہ اٹھی
قسمت کا ستارہ ڈوب گیا
عباسؑ جو لے كے مشکیزہ
خیمے سے چلے دریا کی طرف
یوں موج بڑھیں مضطر ہو کر
پانی میں کنارہ ڈوب گیا
جب تیر لگایا ظالم نے
احساس کی دنیا کانپ اٹھی
یوں ننھے گلے سے خون بہا
بیشیر کا کرتا ڈوب گیا
اصغرؑ كے گلے پر تیر لگا
کونین میں چھایا سناٹا
بیشیر لہو میں کیا ڈوبا
قرآن کا پارہ ڈوب گیا