سجّادؑ رو كے بولے
اے میرے لال باقرؑ
کر صبر میرے بیٹا
خود کو سنبھال باقرؑ
اے میرے لال باقرؑ
مت پیٹ سینہ و سَر
مت کر تو ایسے نوحہ
تر خون میں ہوں لیکن
زندہ ابھی ہوں بیٹا
خاکِ سفر کو سَر پر
ایسے نہ ڈال باقرؑ
طوقِ گراں سے تیری
گردن بندھی ہوئی ہے
یہ وزن ہے كے جس سے
خم پشت ہو گئی ہے
ظالم سے رحم کا تو
مت کر سوال باقرؑ
دین کی بقا کی خاطر
تو نے ستم اٹھائے
تو وہ امام جس نے
طفلی میں غم اٹھائے
دنیا نہ لا سکے گی
تیری مثال باقرؑ
ہر گام امتحاں ہیں
اور شام کا سفر ہے
بے پردہ بیبیاں ہیں
اور شام کا سفر ہے
تجھ کو رلا رہا ہے
بس یہ خیال باقرؑ
سیدانیوں کو ظالم
درّے لگا رہا ہے
اُن کا خیال مجھ کو
ہر دم رلا رہا ہے
گر ہو سکے تو اُن کی
مشکل کو ٹال باقرؑ
زد پر ہے رنج و غم كے
میری بہن سكینہؑ
رخسار پر طمانچے
سہتی ہے وہ ہزینہ
جا کر میری بہن کو
غم سے نکال باقرؑ
کرب و بلا كے بن میں
غم تُو نے جو سہے ہیں
صدمے جو تیرے دِل پر
بازار میں لگے ہیں
ہو گا نہ ان غموں کا
اب اندمال باقرؑ
اے نور زخم اپنے
اشکوں سے دھو كے عابدؑ
اے نور کہہ رہے تھے
باقرؑ سے رو كے عابدؑ
سہہ لے سفر كے سارے
رنج و ملال باقرؑ