اکبرؑ تمہیں معلوم ہے کیا مانگ رہے ہو
تم باپ سے مرنے کی رضا مانگ رہے ہو
اِس غربت میں تمہیں جانے دون کیسے
اِس دشتِ مصیبت میں تمہیں جانے دون کیسے
اِس قیامت میں تمہیں جانے دون کیسے
اے لال جو تم اِذْن وغا مانگ رہے ہو
تم باپ . . .
کیا گزرے گی اِس باپ كے دِل پر نہیں سوچا
تم نے یہ میری جان علی اکبرؑ نہیں سوچا
مر جاؤنگا میں تجھ سے بچھڑ کر نہیں سوچا
تم مجھ سے ضعیفی کا عصا مانگ رہے ہو
تم باپ . . .
دِل روتا ہے نظروں سے اگر دور ہو بیٹا
کس طرح جدائی تیری منظور ہو بیٹا
تم ہی میری آنکھیں ہو میرا نور ہو بیٹا
مجھ سے میری آنکھوں کی ضیا مانگ رہے ہو
تم باپ . . .
دُنیا سے گیا جس گھڑی محبوب خدا کا
نانا کی زیارت کو تڑپتا تھا نواسہ
اے لال تجھے اِس لیے خالق سے تھا مانگا
مقبول ہوئی میری دعا مانگ رہے ہو
تم باپ . . .
ؑ
اسلام پہ خود اپنا لہو رن میں بہاؤ
سینے پہ سِنا شان سے میدان میں کھاؤ
تصویر پیمبرؐ کی تہہ خاک ملاؤ
کیا اِس لیے مرنے کی رِضا مانگ رہے ہو
تم باپ . . .
اک روز تجھے آن کے مانگا تھا پھوپھی نے
اٹھارہ برس نازوں سے پالا تھا پھوپھی نے
بیٹو سے بھی زیادہ تمہیں چاہا تھا پھوپھی نے
احسان جو زینبؑ نے کیا مانگ رہے ہو
تم باپ . . .
رکھتے نہیں تم اسکی خبر اے میرے پیارے
کس درجہ محبت ہے تیری دِل میں ہماری
نانا کی میرے شکل ہے پیکر میں تمھارے
تم صورتِ محبوبِ خدا مانگ رہے ہو
تم باپ . . .
سَر تیرا بھی جس وقت چڑھے گا سرِ نیزہ
ھوگا سرِ میدان جدا سَر بھی تمہارا
ہمشکلِ پیمبرؐ کا گلا کاٹے گی اعدا
گویا میرے نانا کا گلا مانگ رہے ہو
تم باپ . . .
بابا مجھے معلوم ہے کیا مانگ رہے ہوں
اک باپ سے مرنے کی رِضا مانگ رہے ہوں
بابا مجھے اماں نے بھی کچھ درس دیا ہے
آدابِ وفا سے مجھ آگاہ کیا ہے
پہلے میں مروں آپ سے وعدہ یہ لیا ہے
بس اِس لیے مرنے کی رِضا مانگ رہا ہوں
اک باپ سے مرنے کی رِضا مانگ رہا ہوں . . .
بابا مجھے معلوم ہے کیا مانگ رہا ہوں
ہیں آپ تو بابا بنِ خاتونِ قیامت
اور ماں ہے میری ادنیٰ سی اک پیکرِ عصمت
کیا سینے میں اُس كے نہیں کچھ جذبہءِ عصمت
میں مادرِ مضطر کا کہا مانگ رہا ہوں
اک باپ سے مرنے کی رِضا مانگ رہا ہوں . . .
بابا مجھے معلوم ہے کیا مانگ رہا ہوں
بابا مجھے احوال دِل زار پتہ ہے
ہے سخت بہت منزلیں دشوار پتہ ہے
اور دین کا مشکل میں ہے سردار پتہ ہے
یوں آپ سے مرنے کی رِضا مانگو رہا ہوں
اک باپ سے مرنے کی رِضا مانگو رہا ہوں . . .
بابا مجھے معلوم ہے کیا مانگ رہا ہوں
میں شاعرِ حساس جگر سوز ہوں خورشید
محوِ غم شبیرؑ شب و روز ہوں خورشید
آلامِ مصائب سے زمین دوز ہوں خورشید
کشکول میں کچھ اَشْکِ عزا مانگ رہا ہو
اک باپ سے مرنے کی رِضا مانگو رہا ہوں . . .
بابا مجھے معلوم ہے کیا مانگ رہا ہوں