ہے عبادت حسینؑ کا ماتم
ہم کو قرآں نے یہ بتایا ہے
چومتے ہیں اِسے فرشتے بھی
ماتمی ہاتھ جب اٹھاتا ہے
خوں بہایا نہ رُک سکا ماتم
زخم کھا کے نہ رُک سکا ماتم
ہاتھ باندھے نہ رُک سکا ماتم
ہاتھ کاٹے نہ رُک سکا ماتم
سبھی کہنے لگیں یہ تلواریں
یہ عبادت تو معجزانہ ہے
ہے عبادت حسینؑ کا ماتم
ہم کو قرآں نے یہ بتایا ہے
جب بھی ہوتی ہے مجلسِ شبیرؑ
خود ہوائیں دیے جلاتی ہیں
سر پہ ہوتا ہے سایئہِ رحمت
آیتیں غم میں جگمگاتی ہیں
----------
چاند خود چاندنی بچھاتا ہے
نوحے پڑھتے ہیں نوحؑ جیسے نبی
انبیاء خود صفیں بناتے ہیں
وہ عبادت ھے ماتمِ شبیرؑ
عرش والے بھی جس میں آتے ہیں
فرش ماتم کا وہ مصلیٰ ہے
جس پہ کعبہ نماز پڑھتا ہے
آسمان و زمین و لوح ہ قلم
اِس حقیقت کو مانتے ہیں سبھی
حج و خمس و زکواۃ و روزہ کیا
اِس کے دم سے ہیں یہ نمازیں بھی
یہ عبادت تو وہ عبادت ہے
ہر عبادت کو جس نے پالا ہے
اُنکی آواز ہے اَذاں جیسی
نالہءِ حق ہے کربلا ہے یہ
شان اِس کے نشاں کی مت پوچھو
فاتحِ شام کی عطا ہے یہ
داغ ماتم وہ داغ ہے جس میں
ہجرِ اسود دکھائی دیتا ہے
فرش ماتم کا فرش ھے ایسا
دیکھ کر عرش جھومتا ہے جسے
ایسا سینہ ھے ماتمی سینہ
طورِ سینا بھی چومتا ہے جسے
ماتمی ہاتھ ہاتھ ہے ایسا
جو كہ جنت میں گھر بناتا ہے
طاقتِ ماتمِ حسینؑ بنی
لعل سائیں کی طاقتِ پرواز
یہی لاہوت لا مکاں کی صدا
یہی عبداللہ شاہ کی آواز
یہی نعرہ بھی ہے ملنگوں کا
یہی رسمِ قلندرانہ ہے
تیغ و شمشیر پہ جو واجب تھے
وہ بھی قرضے چکائے ہیں اِس نے
جن پہ تقدیریں ناز کرتی ہیں
وہ مقدر بنائے ہیں اِس نے
یہ بچاتا ہے نارِ دوزخ سے
یہی قیدی کو حُر بناتا ہے
کھینچ لیتا ھے جو نقابوں کو
کتنا مضبوط ہاتھ ھے اس کا
اِس حقیقت سے بھی یہ واقف ہے
خون کس کی رگوں میں ھے کس کا
سات نسلوں کو کھول دیتا ہے
سب کا نام و نسب بتاتا ہے
دیکھ کر اسکی صف میں نبیوں کو
دیکھ کر اس کا معجزاتی اثر
سُن کر اسکی فضیلت و عظمت
بات طے ہوگئی یہ گوہر
جو کرے گا حسینؑ کا ماتم
آدمی وہ شریف زادہ ہے
ہے عبادت حسینؑ کا ماتم
ہم کو قرآں نے یہ بتایا ہے