دشت میں گونج رہی تھی علی اکبرؑ کی اذاں
ہائے جھٹلا دی لعینوں (۲) نے محمدؐ کی زباں
وقتِ رخصت علی اکبرؑ سے یہ زینبؑ نے کہا
تم پہ قربان زمانہ (۲) اے میری راحتِ جاں
آ کے لے جانا مجھے رو کے یہ صغرا نے کہا
سر پہ جب سہرا سجانا (۲) اے میرے بھائی جاں
ایسی آذان پڑھی کرب و بلا رونے لگی
چھا گئی شامِ غریباں (۲) میں یہ پیاسوں کی فغاں
اشک شبیرؑ کی آنکھوں سے تو رکتے ہی نہیں
بھائی تکتی تھی كہ جیسے (۲) کوئی پڑھتا ہو قرآں
اللہ اللہ میرے جذبات بکھر جاتے ہیں
رو كے زینبؑ یہ پُکاری (۲) کوئی دے مجھ کو اماں
جوڑ کر ہاتھوں کو اکبرؑ سے سكینہؑ نے کہا
بھیا میرے ہو فدا تم (۲) پہ میری ننھی سی جاں
اِک تلاطم تھا بَپا فوجِ ستمگاروں میں
میری آواز میں ہوتا (۲) تھا محمدؐ کا گماں
سُن كے آذان مدینے میں وہ تڑپی ہو گی
جس کی نظروں میں ہیں اکبرؑ (۲) تیرے قدموں كے نشاں
آج جو االلہ ھو اکبر کی صدا گونجتی ہے
اِس کو یاور خون اکبرؑ (۲) نے کیا پِھر سے جواں