قبر اصغر پہ کہتی تهیں مادر
گهر چلو شام ہوتی ہے اصغر
خاک پر نیند آئے گی کیونکر
گهر چلو شام ہوتی ہے اصغر
بها گئی تیری صورت سبهی کو
لے لیا مجھ سے تجھ نازنیں کو
یہ نہ سوچا کہ روئے گی مادر
گھر چلو شام ہوتی ہے اصغر
آو جهولا تمہیں میں جهلائوں
لوری دے کے تهپک کے سلائوں
نیند آئے گی جنگل میں کیونکر
گھر چلو شام ہوتی ہے اصغر
سونا جنگل ہے اور هو کا عالم ے
کیا مسافر کو رنج و مھن ہے
کیوں لگاہا ہے خاک پہ بستر
گھر چلو شام ہوتی ہے اصغر
نیلے ڈور ہیں نازک کلائی
چھ مہینے کی یہ ہے کمائی
پیارے اصغر پہ صدقے ہو مادر
گھر چلو شام ہوتی ہے اصغر