فاطمہؑ کی قبر پہ بنت علؑی ھے نوحہ خواں
ما ں سے بیٹی کھہ رہی ہے کربلا کی داستا ں
یو ں پڑھی فرزند تیرے نے نماز آخری
قبلہ رو سجدہ میں سر حلقو م پر خنجر رواں
امی دستار یتمیی یو ں بندھی سجادؑ کو
بیٹیریاں پاؤں میں اور گردن میں تھا طوق گرا ں
بعد قتل شاہ دین ہر سُو اندھیرا چھا گیا
آندھیاں اُٹھی فضا میں خو ن رویا آسماں
کٹ گئے غازی کے بازو اور میں تکتی رہی
تیر اصغرؑ کے لگا اکبرؑ کے سینے میں سنا ں
جل گے خیمے سرو ں سے چادریں بھی چھین لیں
تازیانے اس قدر برسے تھا محشر کا سما ں
میں نے خود باندھی ستم ہاتھو ں میں بھابھی کے رسن
کاش شق ہو تی زمیں یا ٹوٹ پڑتا آسماں
لے چلے سنساں راہو ں سے ہمارا قافلہ
سامنے منزل نہ کوئی اور منزل کا نشاں
دھکتی چنگاریاں تھیں یا کہ زرے ریت کے
اس پہ وہ پرخار راہیں تھا برہنا ساربا ں
آنسؤں میں خون کے پنہاں تھا صدمہ اور ہھی
دہکتے دل کی آگ تھی جس سے نہیں اُٹھتا دھواں
گود خا لی ہے ہر اِک کی اور سروں میں خاک ہے
آگیا لُٹ کے گھروں میں مصطفے کا کارواں
تھی پھوپھی سے پوچھتی صغریؑ بتاؤ کچھ مجھے
کیا ہوئے عونؑ و محمدؑ قاسؑم و اکبرؑ کہاں
گر پڑی غش کر کے زینبؑ قبر پہ ماں کی نثار
کب تلک ماں کو سناتی وہ ستم کی داستاں