کربلا کربلا (۳)
کربلا، ميں خاکِ کربلا ہوں رتبہ ميرا جدا ہے (۳)
بنتِ علیؑ نے مجھ کو چادر بنا ليا ہے
ميں خاکِ کربلا ہوں رتبہ ميرا جدا ہے (۲)
کرتے ہيں رشک مجھ پر کوثر کے بھی کنارے
زينبؑ کے سر ميں مَيں نے دو سال ہيں گزارے
ميرا ہر ايک ذرہ ہر ظلم کا گواہ ہے
ميں خاکِ کربلا ہوں رتبہ ميرا جدا ہے (۲)
اکبرؑ جوان قاسمؑ غازیؑ سے چاند تارے
زين العبا نے ميری آغوش ميں اُتارے
يعنی لہو نبیؐ کا مجھ ميں ملا ہوا ہے
ميں خاکِ کربلا ہوں رتبہ ميرا جدا ہے (۲)
روتی ہوں ياد کر کے وہ بےکسی کا منظر
مولاؑ چُھپا رہے تھے مجھ ميں جو لاشِ اصغرؑ
ہاں اُس دن سے آج تک نہ مجھ کو سکوں ملا ہے
ميں خاکِ کربلا ہوں رتبہ ميرا جدا ہے (۲)
شہدائے کربلا کے زخموں کو ميں نے چوما
زہراؑ کی بيٹيوں کے قدموں کو ميں نے چوما
اس واسطے ہی ميری تاثير ميں شفا ہے
ميں خاکِ کربلا ہوں رتبہ ميرا جدا ہے (۲)
اکبرؑ کی لاش پر جب شبيرؑ جا رہے تھے
اُٹھتے تھے بيٹھتے تھے اور لَڑکھڑا رہے تھے
منظر وہ اب بھی ميری آنکھوں ميں پِھر رہا ہے
ميں خاکِ کربلا ہوں رتبہ ميرا جدا ہے (۲)
اے زائرينِ مولاؑ چلنا يہاں سنبھل کے
قرآن فاطمہؑ کا بکھرا ہوا ہے مجھ پر
نا جانے کس جگہ پر اِس کا لہو گرا ہے
ميں خاکِ کربلا ہوں رتبہ ميرا جدا ہے (۲)
توقيرؔ تو بھی کر لے آلِ عبا کا ماتم
جو شام گئی تھی اُس بے رِدا کا ماتم
ممنون ماتمی کی مخدومہ فاطمہؑ ہے
ميں خاکِ کربلا ہوں رتبہ ميرا جدا ہے (۲)