اکبر کڑیل جواں اکبر کڑیل جواں
سینے پہ اکبرؑ نے جب ظلم کی کھائی سناں
ہر طرف چھائی ہوئی غم کی تھی تاریکیاں
کہتی تھی سر پیٹ کر اس طرح مقتل میں ماں
اکبرؑ کڑیل جواں
جب سے ہوئے بیٹا تم آنکھوں سے میری نہاں
دشتِ پر آشوب میں ماں تمہیں ڈھونڈے کہاں
تم ہی تو آواز دو ہو علی اکبرؑ جہاں
اکبرؑ کڑیل جواں
الغرض پہنچے وہاں ٹھوکریں کھاتے حسینؑ
خون میں ڈوبا ہوا آیا نظر نورِ عین
کہہ کے زمین پر گرے ہائے میرے دل کے چین
اکبرؑ کڑیل جواں
دیکھا کہ سینے سے ہے خوں کا دریا رواں
درد سے نور نظر خاک پہ ہے نیم جاں
کھینچ لی دل تھام کے سینے سے شہہؑ نے سنا
اکبرؑ کڑیل جواں
لاشہءِ اکبرؑ نہ جب شاہِ ھُدیٰؑ سے اٹھا
دی صدا سوئے نجف آئیے مشکل کشا
دشتِ پر آشوب میں دیکھئے میں لُٹ گیا
اکبرؑ کڑیل جواں
صدقے ہو تم پر یہ ماں آنکھیں تو کھولو ذرا
صدقے ہو تم پر یہ ماں منہ سے تو بولو ذرا
صدقے ہو تم پر یہ ماں زخم تو دُھو لو ذرا
اکبرؑ کڑیل جواں