نہ محمل ہے نہ ہودج ہے
نہ لشکر کی وہ سج دھج ہے
نہ سر پہ علم نہ چادر ہے
اللہ یہ کیسا منظر ہے
مسافرانِ مصیبت وطن میں آتے ہیں
سفر سے آتے ہیں سوغاتِ درد لاتے ہیں
مسافرانِ مصیبت وطن میں آتے ہیں
کیا سلام محمدؐ کے آستانے کو
کٹا کے آئے ہیں زہراؑ کے سب گھرانے کو
نہ کر قبول تو ہم بیکسوں کے آنے کو
یہ نوحہ کرتے ہیں اور اشکِ خوں بہاتے ہیں
مدینہ ہم تیرے والی کو آئے ہیں کھو کر
مدینہ کوفے میں سر ننگے ہم پھرے دردر
مدینہ داغِ رسن ہے ہمارے شانوں پر
اٹھا کے ہاتھ مدینے کو یہ سناتے ہے
ہر ایک قدم ہے بکا کب لبوں پہ بین نہیں
ہم آئے زندہ پاں زہراؑ کا نور عین نہیں
مدینہ اکبرؑ و قاسمؑ نہیں حسینؑ نہیں
یہ کیسے کیسے جواں تھے جو یاد آتے ہیں
مدینے والوں کہو اس بہن کی کیا تقدیر
جو دیکھے اپنے بردار کے حلق پر شمشیر
لہو میں غرق جو دیکھے حسینؑ کی تصویر
لہو میں کیا یوں ہی بھائی کا سر دکھاتے ہیں
بتاؤ کہتے ہیں کیا سب اس امّاں جائی کو
جو اربعین تلک دے کفن نہ بھائی کو
بہن دکھائے گی منہ کس طرح خدائی کو
کفن دیا ہے نہ اُن کی لحد بناتے ہیں
چلا بشیر یہ دیتا ہوا خبر ہر جا
مگر محلہ ءِ ہاشم میں دیکھتا ہے کیا
کے اک مریضہ سرِ راہ ہے کھڑی تنہا
ہے منتظر کہ وہ کنبے کے لوگ آتے ہیں
خبر یہ پھیلی تو ماتم ہر ایک گھر میں ہوا
نکل نکل پڑیں سب عورتیں برہنہ پا
گری زمین پہ صغراؑ کے اس پہ چرخ گرا
کہ سوگوار ہیں صغراؑ کے پاس آتے ہیں
فضائے درد میں لے کر اداسیاں آئیں
سفر سے لٹ کے ادھر بھوکی پیاسیاں آئیں
اٹھو رسول تمہاری نواسیاں آئیں
کہ خود کو اونٹوں سے اہلِ حرام گراتے ہیں
جو آئی کان میں آوازِ بانُوئے مضطر
کہاں ہو اے میرے والی امامِ جن و بشر
تڑپ کے رہ گئی صغراؑ بپا ہوا محشر
کبیر بس کے اب افلاق تھرتھراتے ہیں