زنجیر بندھے ہاتھوں سے اک لاشہ اٹھا ہے
کانوں سے رواں خون ہے، کُرتا بھی جلا ہے
اے شمر ذرا سوچ، کیا ظلم ہے کس پر
رخسار نہیں ورق تھا، قرآن کا جس پر
ہاتھوں سے تو نے ظلم کا عنوان لکھا ہے
دنیا یا کسی دین کا قانون دکھاﺅ
کہ باپ کو رونا ہے کوئی جرم بتاﺅ
سجاد مسلمانوں سے یہ پوچھ رہا ہے
نظروں کے آگے باپ کی گردن بھی کٹی ہو
کھائے طمانچے ریتِ گرم پر بھی چلی ہو
اس کمسنی میں اتنا ستم کس نے سہا ہے
اُس ماں کو بھلا کیسے وہ یہ لاش دکھائے
بیٹھی ہو جو پہلے ہی سے اصغر کو گنوائے
عابد سرِ زندان یہ ہی سوچ رہا ہے
وہ کہتی رہی بابا کا سر دے دو خدارا
زنداں میں بنے کوئی تو جینے کا سہارا
اُمت نے طمانچوں کے سوا کچھ نہ دیا ہے
قرآنِ مصائب کی وہ معصوم سی آیت
غیرت کا خدا سینے لگائے ہوئے میت
زندان کی دہلیز پہ خاموش کھڑا ہے
یہ بات اہلِ درد ہی سمجھیں گے سلامت
سجاد نے تا عمر کبھی دیکھی نہ راحت
چالیس برس آنکھوں سے بس خون بہا ہے