اے علمدارِ وفا بازو کٹانے والے
مٹ گئے خود تیرے پرچم کو جھکانے والے
آج جن ہاتھوں نے مشکیزے میں بھر لی ہے فرات
کل یہی ہاتھ تھے خیبر کو اٹھانے والے
مٹ گئے خود تیرے پرچم کو جھکانے والے
تجھ کو دریا کی روانی کا سلام آیا ہے
خون پانی کے عوض اپنا بہانے والے
مٹ گئے خود تیرے پرچم کو جھکانے والے
پیاسے بچوں کو تسلّی سے سکینہؑ نے کہا
پانی بس آتا ہے عمّو ہیں لے آنے والے
مٹ گئے خود تیرے پرچم کو جھکانے والے
پنجتنؑ اپنا کرم تجھ پہ کریں گے ہر دم
پرچمِ حضرتِ عباسؑ اٹھانے والے
مٹ گئے خود تیرے پرچم کو جھکانے والے
دو محرم سے جو پیاسا تھا وہ تا مرگ رہا
حاضری کرتے ہیں اب تیری زمانے والے
مٹ گئے خود تیرے پرچم کو جھکانے والے
نوکِ نیزہ پہ تلاوت سے کیا ہے ثابت
کون قرآن پہ خنجر ہیں چلانے والے
مٹ گئے خود تیرے پرچم کو جھکانے والے
ہم پہ ہنستے ہیں تیرے قتل میں شامل تھے جو لوگ
تجھ پہ روتے ہیں تیری یاد منانے والے
مٹ گئے خود تیرے پرچم کو جھکانے والے
سر قلم ہو گیا اسلام بچانے کے لئے
ایسے ہوتے ہیں محمدؐ کے گھرانے والے
مٹ گئے خود تیرے پرچم کو جھکانے والے
میں بھی ریحان یونہی لکھتا رہوں گا نوحے
جب تلک زندہ ہیں نوحوں کو سنانے والے
مٹ گئے خود تیرے پرچم کو جھکانے والے